
Wednesday, December 8, 2010
Tuesday, December 7, 2010
Saturday, November 20, 2010
Thursday, September 23, 2010
Wednesday, September 15, 2010
Monday, September 13, 2010
متنفل(نفل پڑھنے والے ) کے پیچھے فرض نماز
متنفل کے پیچھے فرض نماز
مسئلہ شرعی یہ ہے نفل والے کے پیچھے فرض نماز ادا نہیں ہوتی ہان فرض والے کے پیچھے نفل نماز ہو جاتی ہے ، فرض نماز میں یہ بھی ضروری ہے کہ امام بھی فرض پڑھ رہا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امام و مقتدی دونوں ایک ہی نماز پڑھیں ، ظہر والا عصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا مگر غیر مقلد وہابی کہتے ہیں کہ فرض نماز نفل والے کے پیچھے جائز ہے۔
نوٹ ضروری: بالغ مسلمان کی کوئی نماز نابالغ بچے کے پیچھے جائز نہیں ، نہ فرض ، نہ تراویح نہ نفل۔ کیونکہ بچہ پر نماز فرض نہیں محض نفل ہے۔ اور بچے کی نفل شروع کرنے کے بعد بھی نفل ہی رہتی ہے۔ اگر بچہ نفل شروع کر کے توڑ دے تو اس پر اس کی قضاء نہیں لیکن بالغ کی شروع ہو کر ضروری ہو جاتی ہے ۔ اگر توڑ دے تو قضا لازمی ہے، اس لئے بالغ کوئی نماز بچہ کے پیچھے نہیں پڑھ سکتا ، مگر غیر مقلد وہابیوں کے نزدیک یہ سب جائز ہے ۔ اس لئے ہم اس باب کی بھی دو فصلیں کرتے ہیں ۔ پہلی فصل میں اس مسئلہ کا ثبوت ۔ دوسری فصل میں اس پر اعتراضات مع جوابات۔
پہلی فصل متفل کے پیچھے مفرض کی نماز نا جائز ہے
فرض نماز نفل والے کے پیچھے ادا نہیں ہو سکتی، اس پر بہت سی احادیث شریفہ اور قیاس شرعی شاہد ہیں ، جن میں کچھ پیش کی جاتی ہیں ۔
نمبر 1 تا 4:
ترمذی ، احمد ، ابو داؤد ( شافعی) مشکوٰۃ نے باب الاذان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الامام ضامن والموذن مؤتمن اللھم ارشد الائمۃ و اغفر للمؤذنین۔ “ فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے۔ اے اللہ اماموں کو ہدایت دے اور موذنوں کو بخش دے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام سارے مقتدیوں کی نمازوں کو اپنی نماز کے ضمن میں لئے ہوتا ہے اور ظاہر ہے۔ کہ اعلٰی شئے ادنٰی کو اپنے ضمن میں لے سکتی ہے نہ کہ ادنٰی شئے اعلٰی کو فرض نفل کو اپنے اندر لے سکتا ہے ، کہ نفل سے اعلٰی ہے ، نفل فرض کو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی کہ فرض سے ادنٰی ہے ایسے ہی ہر فرض نماز اپنے مثل فرض کو اپنے ضمن میں لے سکتی ہے۔ نہ کہ دوسرے فرض کو لہذا اگر امام نماز عصر پڑھ رہا ہو تو اس کے پیچھے ظہر کی قضاء نہیں پڑھی جا سکتی کہ نماز عصر نماز ظہر کو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی کہ یہ دونوں نمازیں علیحدہ ہیں ۔ حدیث نمبر5: امام احمد نے حضرت سلیم سلمٰی سے روایت کی۔ انہ اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاذ ابن جبل یاتینا بعد ما ننام ونکون فی اعمالنا بالنھار فینادی بالصلوٰۃ فنخرج بالصلوٰہ الیہ فیطول علینا فقال لہ علیہ السلام یا معاذ لا تکن فتانا اما ان نصلی معنی و اما ان تخفف علٰی نومک۔ “ حضرت سلیم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ حضرت معاذ ابن جبل ہمارے پاس ہمارے سو جانے کے بعد آتے ہیں ، ہم لوگ دن میں اپنے کاروبار میں میں مشغول رہتے ہیں ۔ پھر نماز کی اذان دیتے ہیں ۔ ہم نکل کر ان کے پاس آتے ہیں وہ نماز بہت دراز پڑھاتے ہیں تو ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! فتنہ کا باعث نہ بنو تو میرے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو یا اپنی قوم کو ہلکی نماز پڑھایا کرو۔“
خیال رہے کہ حضرت معاذ ابن جبل نماز عشاء حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھ کر اپنی قوم میں پہنچ کر انہیں پڑھاتے اور دراز پڑھاتے تھے، جس کی شکایت بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوئی ۔ جس کا واقعہ یہاں ذکر ہوا۔
معلوا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ابن جبل کو اس کی اجازت نہ دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر اپنی قوم کو پڑھائیں ۔ کیونکہ نفل والے پیچھے فرض نماز جائز نہیں ۔ بلکہ فرمایا کہ یا میرے پیچھے پڑھو، تو قوم کو نہ پڑھاؤ۔ قوم کو پڑھاؤ تو میرے پیچھے نہ پڑھو۔
حدیث نمبر6: امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سے انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی سے حدیث روایت کی۔ قال اذا دخلت فی صلوٰہ القوم وانت لا تنوی صلوٰتھم لا تجزک وان صلی الامام صلوٰتہ و نوی الذی خلفہ غیرھا اجزات الامام ولم تجزھم رواہ الامام محمد فی الاٰثار۔ “ فرماتے ہیں ، کہ جب تم قوم کی نماز میں شامل ہو اور تم ان کی نماز کی نیت نہ کرو ۔ تو تمھیں نہ نماز کافی نہیں اور اگر امام ایک نماز پڑھے اور پیچھے والا مقتدی دوسری نماز کی نیت کرے تو امام کی نماز ہو جائے گی پیچھے والے کی نہ ہوگی۔“
اس سے معلوم ہوا کہ علماء ملت کا بھی یہ ہی مسلک ہے کہ نفل والے کے پیچھے فرض نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ایسے ہی ایک فرض کے پیچھے دوسرا فرض ادا نہین ہو سکتا۔ عقل کا تقاضا بھی یہ ہے کہ نفل والے کے پیچھے فرض ادا نہ ہوا، کیونکہ امام پیشوا ہے مقتدی اس کا تابعدار امام کی نماز اصل ہے مقتدی کی نماز اس پر متفرع، اس لئے امام کے سہو سے مقتدی پر سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے۔
لیکن مقتدی کے سہو سے نہ امام پع سجدہ سہو واجب نہ خود اس مقتدی پر امام کی قرات مقتدی کیلئے کافی ہے۔ مگر مقتدی کی قران امام کیلئے کافی نہیں۔ حنفیوں کے نزدیک تو مطلقا وہابیوں کے نزدیک سورہ فاتحہ کے سوا میں اگر امام بے وضو نماز پڑھا دے تو مقتدی کی نماز بھی نہ ہوگی لیکن اگر مقتدی بے وضو نماز پرھ لے تو امام کی نماز درست ہو گی۔ امام سجدہ کی آیت آیتہ تلاوت کرے تو مقتدی پر سجدہ تلاوت واجب ہے مقتدی سنے یا نہ سنے ۔ لیکن اگر مقتدی امام کے پیچھے سجدہ کی آیت تلاوت کرے، تو نہ امام پر سجدہ تلاوت واجب نہ خود اس مقتدی پر۔ اگر امام مقیم ہو اور مقتدی مسافر تو مقتدی کو پوری نماز پڑھنی پڑے گا۔ لیکن اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم تو امام پوری نماز نہ پڑھے گا۔ بلکہ قصر کرے گا۔ اس قسم کے بہت مسائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مقتدی اور اس کی نماز تابع ہے امام اور امام کی نماز اصل و متبوع ہے متبوع تابع سے یا تو برابر ہو یا اعلٰی اور نفل نماز ، فرض نماز سے درجہ کم ہے۔ تو چاہیئے کہ نفل کے پیچھے فرض ادا نہ ہو، تاکہ اعلٰی و افضل ادنٰی کے تابع نہ ہو جاوے اسی طرح ایک فرض دوسرے فرض کے پیچھے نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ ایک نوع دوسرے نوع کے تابع نہیں ہو سکتی ۔ جب نماز عید پڑھانے والے امام کے پیچھے نماز فجر نہیں ہو سکتی غرضیکہ ضروری یہ ہے کہ یا تو امام و مقتدی کی نماز ایک ہو یا مقتدی کی نماز امام کی نماز سے ادنٰی ہو کہ امام فرض پڑھ رہا ہو۔
دوسری فصل اس مسئلہ پر اعتراضات و جوابات
ہم اس پر غیر وہابیوں کی وکالت میں اس کی طرف سے وہ اعتراضات بھی عرض کئے دیتے ہیں ، جو وہ کیا کرتے ہیں ، اور وہ بھی جو اب تک ان کو سوجھے بھی نہیں ہوں گے اور ان تمام کے جوابات دئے دیتے ہیں ۔
اعتراض نمبر1: عام محدثین نے حدیث روایت کی کہ معراج کی رات نماز پنجگانہ فرض ہوئیں ۔ اس کے بعد دو دن حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور کو پانچویں نمازیں پڑھائیں پہلے دن ہر نماز اول وقت میں دوسرے دن آخر وقت میں اور پھر عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان وقتوں کے درمیان ان نمازوں کت اوقات ہیں ۔ دیکھو حضور پر یہ نمازیں فرض تھیں اور حضرت جبریل علیہ السلام کیلئے نفل کیونکہ نماز پنجگانہ فرشتوں پر فرض نہیں مگر اس کے باوجود جبریل علیہ السلام امام ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی معلوم ہوا کہ نفل کے پیچھے فرض نماز درست ہے بلکہ اسلام میں پہلی نماز ایسی ہی ہوئی ۔ یعنی نفل کے پیچھے فرض اور فعل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اور سنت جبریل علیہ السلام بھی۔ جواب: اس کے دو جواب ہیں ایک یہ بتاؤ جبریل علیہ السلام یہ نمازیں پڑھانے رب کے حکم سے آئے تھے یا خود اپنی طرف سے آگئے بغیر حکم الہٰی۔ دوسری بات تو باطل ہے کیونکہ حضرت جبریل علیہ السلام بغیر حکم الہٰی کبھی نہیں آتے ۔۔ رب تعالٰی فرماتا ہے۔ وما نتنزل الا بامر ربک ۔ “ ہم رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔“
لہذا ماننا پڑے گا۔ کہ رب تعالٰی کے حکم سے آئے۔ جب حضرت جبریل کو رب نے ان نمازوں کا حکم دیا تو ان پر فرض ہو گئیں ۔ رب کا حکم ہی فرض بنانے والی چیز ہے۔ لہذا ان نمازوں میں نفل کے پیچھے فرض نہ پڑھے گئے۔
دوسرے یہ کہ ان دونوں میں نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نمازیں فرض تھیں نہ صحابہ پر کیونکہ اگرچہ معراج کی رات میں نمازیں فرض کر دی گئیں ۔ لیکن ابھی ان کا طریقہ اور وقت کی تعلین نہ دی گئی قانون تشریح سے پہلے واجب العمل نہیں ہوتا ۔ اس لئے تمام مسلمانوں نے نہ تو حضرت جبریل علیہ السلام کے پیچھے یہ نمازیں پڑھیں نہ ان دونوں کی نمازیں قضا کیں ۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کے پیچھے نفل پڑھے الحمد للہ کہ تمھارا اعتراض جڑ سے اکھڑ گیا۔
اعتراض نمبر 2: مسلم و بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ قال کان معاذ ابن جبل یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یاتی قومہ فیصلی بھم ۔
“ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر اپنی قوم میں آتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔“
دیکھو حضرت معاذ عشاء کے فرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھ لیتے تھے پھر اپنی قوم میں آکر پڑھاتے تھے آپ کی نماز نفل تھی اور سارے مقتدیوں کی نماز فرض ۔ معلوم ہوا کہ نفل والے کے پیچھے فرض پڑھنا سنت صحابہ ہے۔
جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نفل پڑھتے ہوں اور قوم کے ساتھ فرض ادا کرتے ہوں حضرت معاذ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فرض پڑھ لیا کرتا ہوں اور مقتدیوں کے آگے نفل کی نیت کرتا ہوں لہذا آپ کیلئے یہ حدیث بالکل بے فائدہ ہے ۔
دوسرے یہ کہ اس حدیث میں یہ نہیں آیا کہ حضرت معاذ نے یہ کام حضور کی اجازت سے کیا کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہو کہ فرض میرے پیچھے پڑھ لیا کرو اور نفل مقتدیوں کے ساتھ یہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا، جو کہ واقعہ میں درست نہ تھا ۔ بار ہا صحابہ کرام سے اجتہادی غلطی ہوئی۔
تیسرے یہ کہ ہم پہلی فصل میں حدیث پیش کر چکے ہیں ، کہ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حضرت معاذ کے اس عمل کی اطلاع دی گئی ، تو حضور نے انہیں اس سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ یا تو میرے ساتھ نماز پڑھا کرو یا مقتدیوں کو ہلکی نماز پڑھایا کرو، معلوم ہوا کہ حضرت معاذ کا یہ اجتہاد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے۔
اعتراض نمبر 3: بیہقی اور بخاری نے انہی حضرت جابر سے حضرت معاذ کا یہ ہی واقعہ روایت کیا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں ۔
قال کان معاذ یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم العشاء ثم یرجع الٰی قومہ فیصلی بھم العشاء وھی لہ نافلۃ ۔ “ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھ لیتے تھے۔ پھر اپنی قوم کی طرف لوٹتے تھے تو انہیں عشاء پڑھاتے تھے یہ نماز ان کی نفل ہوتی تھی۔“
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفل نہ پڑھتے تھے۔ بلکہ فرض ہی پڑھتے تھے اور مقتدیوں کے آگے نفل ادا کرتے تھے ۔ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ حضور کے پیچھے نفل اور مقتدیوں کے ساتھ فرض پڑھتے تھے۔ جواب: آپ کی یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ حضرت کا یہ واقعہ نقل کر کے اپنے اندازے اور قیاس سے فرماتے ہیں،کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تھے، اس میں یہ نہیں کہ حضرت معاذ نے اپنی نیت و ارادے کا پتہ دیا ہو ۔ دوسرے کی نیت کے متعلق اس سے بغیر پوچھے ، یقین نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس میں یہ ہے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی۔ لہذا یہ حدیث کسی طرح آپ کی دلیل نہیں بن سکتی۔
اعتراض نمبر4: بخاری شریف نے حضرت عمرو ابن سلمہ سے ایک طویل حدیث روایت کی جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہماری قوم ایک گھاٹ پر رہتی تھی۔ جہاں سے قافلے گزرا کرتے تھے۔ میں حجازی قافلوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور قرآنی آیات پوچھتا رہتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد میرے والد مدینہ منورہ حاضر ہو کر اپنی قوم کی طرف سے اسلام لائے وہاں سے نماز کے احکام معلوم کئے ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذان کوئی دے دیا کرے مگرنماز وہ پڑھائے جسے زیادہ قرآن کریم یاد ہو۔ جب واپس ہوئے تو انہیں پتہ لگا کہ، کہ مجھے قرآن کریم سب سے زیادہ یاد تھا ۔ مجھے امام بنا دیا ، اس وقت میری عمر چھ سال تھی، میں قوم جو نماز پڑھاتا تھا۔ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ فکانت علی بردۃ کنت اذا سجدت قلصت عنی فقالت امراءۃ من الحی الا تغطون عنا است قارئکم فاشتروا فقطعوا لی قمیصا ۔ (مشکوٰۃ باب امامہ)
“ مجھ پر ایک چادر ہوتی تھی ، کہ جب میں سجدہ کرتا تو کھل جاتی تو قبیلے کی ایک عورت نے کہا کہ اپنے قاری صاحب کے چوتڑ کیوں نہیں ڈھکتے تو لوگوں نے میرے لئے کپڑا خرید کر قمیص سی دی۔“
دیکھو عمرو ابن سلمہ صحابہ ہیں ، اور تمام صحابہ ان کے پیچھے نماز فرض پڑھتے ہیں ، عمرو ابن سملہ رضی اللہ عنہ کی عمر شریف چھ سال ہے ان پر کوئی نماز فرض نہیں بچے کی نفل بھی بہت ادنٰی ہوتی ہے لیکن جوان بڈھے ان کے پیچھے فرض ادا کرتے ہیں معلوم ہوا کہ نفل والے کے پیچھے فرض ادا ہو جاتے ہیں ۔ جواب: اس کے وہ ہے جواب ہیں جو اعتراض نمبر 2 کے ماتحت گزرے ہیں ان کا یہ عمل اپنی رائے سے تھا نہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے چونکہ یہ حضرات تازہ اسلام لائے تھے ۔ احکام شرعی کی خبر نہ تھی بے خبری میں ایسا کیا ۔ اگر آپ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کرتے ہو تو یہ بھی مان لو کہ ننگے ز
امام کے پیچھے بھی نماز جائز ہے۔ کیونکہ عمرو ابن سلمہ خود فرماتے ہیں کہ میرا کپڑا اتنا چھوٹا تھا ، کہ سجدہ میں چادر ہٹ جاتی اور چوتڑ ننگے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود یہ حضرات نمازیں پڑھتے رہے، کسی نے نماز نہ لوٹائی، کیوں مسائل شرعیہ سے بے خبری کی وجہ سے افسوس کہ آپ حضرات آنکھ بند کر کے حدیث پڑھتے ہیں۔
ان تمام گفتگو سے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کے متعلق وہابیوں کے پاس مرفوع حدیث موجود نہیں نہ حدیث ولی نہ فعلی یوں ہی چند شبہات کی بنا پر اس مسئلہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر محض عداوت سے تبرا کرتے اور انکی جناب میں گستاخیاں گالی گلوچ بکتے ہیں ۔
__________________
بحث مزارات اولیاءاللہ پر گنبد بنانا
بحث مزارات اولیاءاللہ پر گنبد بنانا
مسلمان دو طرح کے ہیں ایک تو عام مومنین۔ دوسرے علماء مشائخ اولیاءاللہ جن کی تعظیم و توقیر در حقیقت اسلام کی تعظیم ہے۔ عامۃ المسلمین کی قبروں کو پختہ بنانا یا ان پر قبہ وغیرہ بنانا چونکہ بے فائدہ ہے اس لیے منع ہے ہاں اس پر مٹی وغیرہ ڈالتے رہنا تاکہ اس کا نشان نہ مٹ جائے فاتحہ وغیرہ پڑھی جاسکے جائز ہے۔ اور علماء مشائخ عظام اولیاء اللہ جن کے مزارات پر خلقت کا ہجوم رہتا ہے لوگ وہاں بیٹھ کر قرآن خوانی و فاتحہ وغیرہ پڑھتے ہیں ان کے آسائش اور صاحب قبر کی اظہار عظمت کے لیے اس کے آس پاس سایہ کے لیے قبہ وغیرہ بنانا شرعاً جائز بلکہ سنت صحابہ سے ثابت ہے اور جن عوام مومنین کی قبریں پختہ بنانا یا ان پر قبہ بنانا منع ہے اگر ان کی قبریں پختہ بن گئی ہوں تو ان کو گرانا حرام ہے پہلے مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے آخر کے دو مسئلوں میں اختلاف اس لیے ہم اس بحث کے دو باب کرتے ہیں۔ پہلے باب میں تو اس کا ثبوت۔ دوسرے باب میں مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات۔
پہلا باب
مزارات اولیاء اللہ پر عمارت کا ثبوت
اس جگہ تین امور ہیں ایک تو خود قبر کو پختہ کرنا۔ دوسرے قبر ولی کو قدر سنت یعنی ایک ہاتھ سے زیادہ اونچا کرنا۔ تیسرے قبر کے آس پاس عمارت بنا دینا۔ پھر قبر کو پختہ کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک تو قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت سے ملا ہوا ہے اس کو پختہ کرنا دوسرے قبر کا بیرونی حصہ جوکہ اوپر نظر آتا ہے اس کو پختہ کرنا-
قبر کے اندرونی حصہ کو پختہ اینٹ سے پختہ کرنا۔ وہاں لکڑی لگانا منع ہے ہاں اگر وہاں پتھر یا سیمنٹ لگایا جاوے تو جائز ہے کیونکہ لکڑی اور اینٹ میں آگ کا اثر ہے۔ قبر کا بیرونی حصہ پختہ بنانا عامۃ المسلمین کے لیے منع ہے اور خاص علماء مشائخ کے لیے جائز ہے۔
قبر کا تعویذ ایک ہاتھ سے زیادہ اونچا کرنا منع ہے اور اگر آس پاس چبوترہ اونچا کرکے اس پر تعویذ بقدر ایک ہاتھ کیا تو جائز ہے۔
قبر کے آس پاس یا قبر کے قریب کوئی عمارت بنانا عامۃ المسلمین کی قبروں پر تو منع ہے۔ اور فقہاء علماء کی قبروں پر جائز۔ دلائل حسب ذیل ہیں۔
1) مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب الدفن میں برویات ابو داؤد ہے کہ جب حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان ابن مظعون کو دفن فرمایا تو ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نصب فرمایا۔ اور فرمایا اعلم بھا قبر اخی وادفن الیہ من مات من اھلی ہم اس سے اپنے بھائی کی قبر کا نشان لگائیں گے اور اسی جگہ اپنے ایک بیت کے مردوں کو دفن کریں گے۔2) بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر میں تعلیقاً ہے حضرت خارجہ فرماتے ہیں۔ ہم زمانہ عثمان میں تھے۔
ان اشدنا وثبۃ الذی یثب قبر عثمان ابن مظعون حتی یجاوزہ"ہم میں بڑا کودنے والا وہ تھا جو عثمان ابن مظعون کی قبر کو پھلانگ جاتا۔"
مشکوٰۃ کی روایت سے معلوم ہوا کہ عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے پتھر تھا اور بخاری کی اس روایت سےمعلوم ہوا کہ خود قبر عثمان کا تعویذ اس پتھر کا تھا اور دونوں روایات اس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ مشکوٰۃ میں جو آیا کہ قبر کے سرہانے پر پتھر لگایا اس کے معنٰی یہ نہیں کہ قبر سے علیحدہ سر کے قریب کھڑا کر دیا بلکہ یہ ہے کہ خود قبر میں ہی سر کی طرف اس کو لگایا یا مطلب یہ کہ قبر ساری اس پتھر کی تھی مگر سرہانے کا ذکر کیا۔ ان دونوں احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی خاص قبر کا نشان قائم رکھنے کے لیے قبر اونچی کر دی جاوے یا پتھر وغیرہ سے پختہ کردی جائے تو جائز ہے تاکہ معلوم ہوکہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے۔ اس سے پہلے دو مسئلے حل ہوگئے نیز فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی زمین نرم ہو اور لوہے یا لکڑی کے صندوق میں میت رکھ کر دفن کرنا پڑے تو اس کے اندرونی حصہ میں چاروں طرف مٹی سے کہگل کردو (دیکھو شامی اور عالمگیری وغیرہ باب دفن لمیت) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبر کو اندر سے کچا ہونا چاہئیے۔ دو مسائل ثابت ہوئے۔
3) مشائخ کرام اولیاء عظام علماء کرام کی مزارات کے ارد گرد یا اس کے قریب میں کوئی عمارت بنانا جائز ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا۔
قال الذین غلبوا علی امرھم لتخذن علیھم مسجدا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحابِ کہف پر مسجد بنائیں گے۔ روح البیان میں اس آیت میں بنانا کی تفسیر میں فرمایا۔[/COLOR] دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ شوند یعنی لا یعلم احد تربتھم وتکون محفوظۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ بالحظیرۃ یعنی انہوں نے کہا کہ اصحابِ کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہو جاویں۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام کی قبر شریف چار دیواری سے گھیر دی گئی ہے۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے
یصلی فیہ المسلمون ویتبرکون بمکانھم لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں ۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی دو باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحابِ کہف کے گرد قبہ اور مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حضرت صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام اس کو گرا دیتے۔ پھر دفن کرتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچادی۔ پھر ولید ابن عبدالملک کہ زمانہ میں سیدنا ابن زبیر نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایے مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفٰی مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرۃ المنیفۃ 196 میں ہے۔ عن عمرو ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھدالنبی صلے اللہ علیہ وسلم حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدارہ قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن ازبیر الخ وقال الحسن البصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانا غلام مراھق ادا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من الکعسۃ من سعیر مربوطتہ فی خشب عرعرۃ
ترجمہ وہ ہی جو اوپر بیان ہو چکا۔ بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی وابی بکر و عمر میں ہے کہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دیوار گر گئی تو اخذوافی بنائہ صحابہ کرام اس کے بنانے میں مشغول ہوئے۔
فبدت لھم قدم ففزعوا وظنوا انھا قدم النبی علیہ السلام حتی قال لھم عروۃ لا واللہ ماھی قدم النبی علیہ السلام ماھی الا قدم عمر
"ایک قدم ظاہر ہوگیا تو لوگ گھبرا گئے اور سمجھے کہ یہ حضور علیہ السلام کا قدم پاک ہے۔ حضرت عروہ نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ حضور علیہ السلام کا قدم نہیں ہے یہ حضرت فاروق کا قدم ہے۔"
جذب القلوب الی دیار المحجوب میں شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ 550ھ میں جمال الدین اصفہانی نے علماء کرام کی موجودگی میں صندل کی لکڑی کی جالی اس دیوار کے آس پاس بنائی اور 557ھ میں بعض عیسائی عابدوں کی شکل میں مدینہ منورہ آئے اور سرنگ لگاکر نعش مبارک کو زمین سے نکالنا چاہا۔ حضور علیہ السلام نے تین بار بادشاہ کوخواب میں فرمایا۔ لٰہذا بادشاہ نے ان کو قتل کرایا اور روضہ کے آ س پاس پانی تک بنیاد کھود کر سیسہ لگاکر اس کو بھردیا پھر 678ھ میں سلطان قلاؤں صالحی نے یہ گنبد سبز جو اب تک موجود ہے بنوایا۔
ان عبارات سے یہ معلوم ہوا کہ روضہ مطہرہ صحابہ کرام نے بنوایا تھا اگر کوئی کہے یہ تو حضور علیہ السلام کی خصوصیت ہے تو کہا جاوے گا کہ اس روضہ میں حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دفن ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی دفن ہوں گے لٰہذا یہ خصوصیت نہ رہی۔ بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوٰۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت امام حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔
ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ "[COLOR="purple"]تو ان کو بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔"
یہ بھی صحابہ کرام کے زمانہ میں سب کی موجودگی میں ہوا۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاںرہیں۔ پھر گھر واپس آئیں۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پت مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔
یہاں تک تو قرآن و حدیث سے ثابت ہوا۔ اب فقہاء محدثین اور مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
روح البیان جلد3پارہ1 زیر آیت انما یعمر مسجداللہ من امن باللہ میں ہے-
قبناء قباب ولی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذا کان القصد بذلک التعطیم فی اعبن العامۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر
"علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں۔·"
مرقات شرح مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب دفن المیت میں ہے-
قد اباح السلف البناء علے قبور المشائخ والعلماء المشھورین لیزورھم الناس ویستریحو ابالجلوس"پہلے علماء نے مشائخ اور علماء کی قبروں پر عمارت بنانا جائز فرمایا ہے تاکہ ان کی زیارت کریں۔ اور وہاں بیٹھ کر آرام پائیں۔"
شیخ عبدالحق محدث دہلوی شرح سفر السعادت میں فرماتے ہیں۔
"در آخر زمان بجہت اقصار نظر عوام بر ظاہر مصلحت در تعمیر ترویج مشاہد و مقابر مشائخ و عظماء زیدہ چیزہا افزوند تاآنجابیت و شوکت اسلام و اہل صلاح پیدا آید خصوصاً درد یار ہند کہ اعدائے دین از ہنود و کفار بسیارامذ۔ وترویج اعلاء شان ایں مقامات باعث رعب و انقیا داایشاں است و بسیار اعمال و افعال وادضاع کہ در زمان سلف از مکروہات بودہ انددر آخر زمان از مستحسنات گشتہ۔"
"آخر زمان میں چونکہ عام لوگ محض ظاہر بین رہ گئے۔ لٰہذا مشائخ اور صلحاء کی قبروں پر عمارت بنانے میں مصلحت دیکھ کر زیادتی کردی تاکہ مسلمان اور اولیاء اللہ کی ہیبت ظاہر ہو خاص کر ہندوستان میں کہ یہاں ہندو اور کفار بہت سے دشمنان دین ہیں ان مقامات کی اعلان شان کفار کے رعب اور اطاعت کا ذریعہ ہے اور بہت سے کام پہلے مکروہ تھے اور آخر زمانہ میں مستحب ہوگئے-"
شامی جلد اول باب الدفن میں ہے۔
وقیل لا یکرہ البناء اذا کان المیت من المشائخ والعلماء والسادات
"کہ اگر میت مشائخ اور علماء اور سادات کرام میں سے ہو تو اس کی قبر پر عمارت بنانا مکروہ نہیں ہے۔"
درمختار میں اسی باب الدفن میں ہے۔ لا یرفع علیہ بناء وقیل لاباس بہ وھو المختار قبر پر عمارت نہ بنائی جائے اور کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ہی قول پسندیدہ ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ شامی اور درمختار نے عمارت کے جواز کو قبل سے بیان کہا۔ اس لیے یہ قول ضعیف ہے لیکن یہ صحیح نہیں فقہ میں قیل علامت ضعیف نہیں۔ اور بعض جگہ ایک مسئلہ میں دو قول بیان کرتے ہیں اور دوونوں قیل سے۔ ہاں منطق میں قیل علامت ضعیف ہے۔ قیل کی مکمل بحث اذان قبر کے بیان میں دیکھو۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ335 میں ہے۔
وقد اعتاد اھل المصر وضع الاحجار للقبور عن الاندارس والنبش ولا باس بہ وفی الدرد ولا یحصص ولا یطین ولا یرفع علیہ بناء وقیل لا باس بہ ھو المختار"مصر کے لوگ قبروں پر پتھر رکھنے کے عادی ہیں۔ تاکہ وہ مٹنے اکھڑنے سے محفوظ رہیں اور قبر کو گچ نہ کی جاوے نہ کھسگل کی جاوے نہ اس پر عمارت بنائی جاوے اگر کہا گیا کہ جائز ہے اور یہ مختار ہے۔"میزاب کبرٰی آخر جلد اول کتاب الجنائز میں امام شعرانی فرماتے ہیں۔
ومن ذلک قول الائمۃ ان القبر لاینی ولا یحصص مع قول ابی حنیفۃ یجوز ذلک قال الاول مشدد والثانی مخفف"اسی سے ہے دیگر اماموں کا یہ کہنا کہ قبر پر نہ عمارت بنائی جاوے اور نہ اس کو گچ کی جاوے باوجود یکہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ یہ سب جائز ہے پس پہلے قول میں سختی ہے اور دوسرے میں آسانی۔"اب تو رجسٹری ہوگئی کہ خود امام مذہب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان مل گیا کہ قبر پر قبہ وغیرہ بنانا جائز ہے۔
الحمدللہ کہ قرآن و حدیث اور فقہی عبارات بلکہ خود امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فرمان پاک سے ثابت ہوگیا کہ اولیاء علماء کی قبور پر گنبد وغیرہ بنانا جائز ہے۔ عقل بھی چاہتی ہے کہ یہ جائز ہو چند وجوہ سے اولاً تو یہ دیکھا گیا ہے کہ عام کچی قبروں کا عوام کی نگاہ میں نہ ادب ہوتا ہے نہ احترام اور نہ زیادہ فاتحہ خوانہ نہ کچھ اہتمام بلکہ لوگ پیروں سے اس کو روندتے ہیں- اور اگر کسی قبر کو پختہ دیکھتے ہیں غلاف وغیرہ پڑا ہوا پاتے ہیں سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے اس سے بچ کر نکلتے ہیں اور خود بخود فاتحہ کو ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور مشکوٰۃ باب الدفن میں اور مرقات میں ہے کہ مسلمان کا زندگی اور بعد موت یکساں ادب چاہئیے۔ اسی طرح عالمگیری کتاب الکراہیت اور اشعتہ اللمعات باب الدفن میں ہے کہ والدین کی قبر کو چومنا جائز ہے۔
اسی طرح فقہاء فرماتے ہیں کہ قبر سے اتنی دور بیٹھے جتنی دور کہ صاحب قطر کی زندگی میں اس سے بیٹھتا تھا اس سے معلوم ہوا کہ میت کا احترام بقدر زندگی کے احترام کے ہے اور اولیاء اللہ تو زندگی میں واجب التعظیم تھے۔ لٰہذا بعد موت بھی اور قبر کی عمارت اس تعظیم کا ذریعہ ہے لٰہذا کم از کم مستحب ہے۔ دوسرے اس لیے کہ جس طرح تمام عمارات میں سرکاری عمارتیں یاکہ مساجد ممتاز رہتی ہیں کہ ان کو پہچان کر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ علماء کو چاہئیے کہ اپنی وضع قطر لباس صورت اہل علم کا سا رکھیں تاکہ لوگ ان کو پہچان کر مسائل دریافت کریں۔ اسی طرح چاہئیے کہ علماء مشائخ کے قبور عام قبروں سے ممتاز رہیں تاکہ لوگ پہچان کر ان سے فیض لیں۔ تیسرے اس لیے کہ مقابر اولیاء اللہ شعائراللہ ہیں جیسا کہ ہم اس سے پہلے تفسیر روح البیان کے حوالہ سے بیان کرچکے ہیں اور شعائراللہ کا ادب ضروری ہے قرآن سے ثابت ہے لٰہذا قبروں کا ادب چاہئیے۔ ادب کے ہر ملک اور ہر زمانہ میں علیحدہ طریقے ہوتے ہیں۔ جو طریقہ بھی ادب کا خلاف اسلام نہ ہو وہ جائز ہے حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک میں قرآن پاک ہڈیوں اور چمڑے پر لکھا تھا۔ مسجد نبوی کچی تھی اور چھت میں کھجور کے پتے تھے جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ مگر بعد زمانے میں مسجد نبوی نہایت شاندار روضہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم بہت اہتمام سے بنائے گئے اور قرآن کو اچھے کاغذ پر چھاپہ گیا۔
درمختار کتاب الکراہیت فضل فی البیع میں ہے۔ وجاز تحلیتہ المصحف لما فیہ من تعظیمہ کما فی نقش المسجد
اس کے ماتحت شامی میں ہے ای بالذھب والفضیۃ یعنی قرآن کریم کو چاندی سونے سے آراستہ کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں ان کی تعظیم ہے- جیسا کہ مسجد کو نقسین کرنا۔ اسی طرح صحابہ کرام کے زمانہ میں حکم تھا کہ قرآن کو آیات اور رکوع اور اعراب سے خالی رکھو۔ لیکن اس زمانہ کے بعد چونکہ ضرورت درپیش ہوئی۔ یہ تمام کام جائز بککہ ضروری ہوگئے۔ شامی میں اسی جگہ ہے۔
وماروی عن ابن مسعوف جردود القراٰن کان فی زمنھم وکم من شیئی یختلف باختلاف الزمان والمکان
"ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن کو اعراب وغیرہ سے خالی رکھو یہ اس زمانہ میں تھا۔ اور بہت سی چیزیں زمانہ اور جگہ بدلنے سے بدل جاتی ہیں۔"
اسی مقام پر شامی میں ہے کہ قرآن کو چھوٹا کرکے نہ چھاپو یعنی حمائل نہ بناؤ بلکہ اس کا قلم موٹا ہو۔ حرف کشادہ ہوں تقطیع بڑی ہو، یہ سارے احکام کیوں ہیں؟ صرف قرآن کی عظمت کے لیے اسی طرح یہ بھی ہے اول زمانہ میں تعظیم قرآن و اذان و اقامت پر اجرت لینا حرام تھا حدیث وفقہ میں موجود ہے مگر بعد کو ضرورتاً جائز کیا گیا۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں خود زندگہ لوگوں کو پختہ مکان بنانے کی ممانعت تھی۔ ایک صحابی نے پختہ مکان بنایا تو حضور علیہ السلام ناراض ہوئے یہاں تک کہ ان کے سلام کا جواب نہ دیا اس کو گرادیا۔ تب جواب سلام دیا۔ (دیکھو مشکوٰۃ کتاب الرقاق فصل ثانی)
اسی مشکوٰۃ کتاب الرقار [COLOR="purple"]میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔[/COLOR] اذالم یبارک للعبد فی مالہ جعلہ فی الماء والطین جب بندے کے مال میں بے برکتی ہوتی ہے تو اس کو اینٹ گارے میں خرچ کرتا ہے لیکن ان احکام کے باوجود عام مسلمانوں نے بعد میں پختہ مکان بھی بنائے اور مسجدیں بھی۔ تعجب ہے کہ جو حضرات اولیاء اللہ کی قبروں کے پختہ کتنے یا ان پر قبہ بنانے کو حرام کہتے ہیں وہ اپنے مکان کیوں عمدہ اور پختہ بناتے ہیں۔ اتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کیا بعض حدیثوں پر ایمان ہے اور بعض کا انکار۔ اللہ سمجھ دے چوتھے اس لیے کہ اولیاءاللہ کی مقابر کا پختہ ہونا۔ ان پر عمارات قائم ہونا۔ تبلیغ اسلام کا ذریعہ ہے۔ اجمیر شریف وغیرہ میں دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ وہاب ہندو اور دیگر کفار زیارت کو جاتے ہیں بہت سے ہندوؤں اور افضیوں کو میں نے دیکھا کہ خواجہ صاحب کی دھوم دھام دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ ہندوستان میں اب کفار مسلمانوں کے ان اوقاف پر قبضہ کر رہے ہیں جن میں کوئی علامت نہ ہو۔ بہت سی مسجدیں، خانقاہیں، قبرستان بے نشان ہوکر ان کے قبضے میں پہنچ گئے اگر قبرستان کی ساری قبریں کچی ہوں تو وہ کچھ دن میں گرگر کر برابر ہو جاتی ہیں اور سادہ زمین پر کفار قبضہ جما لیتے ہیں لٰہذا اب سخت ضرورت ہے کہ ہر قبرستان میں کچھ قبریں پختہ ہوں تاکہ ان سے اس زمین کا قبرستان ہونا بلکہ اس کے حدود معلوم رہیں۔
میں نے اپنے وطن میں خود دیکھا کہ مسلمانوں کے دو قبرستان بھر چکے تھے ایک میں بجز دو تین قبروں کے ساری قبریں کچی تھیں۔ دوسرے قبرستان کے کچھ حصہ میب پختہ قبریں بھی تھیں۔ مسلمان فقیروں نے یہ دونوں قبرستان خفیہ طور پر فروخت کر دئیے جس پر مقدمہ چلا۔ پہلا قبرستان تو سوائے پختہ قبروں کے مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا۔ کیونکہ حکام نے اسے سفید زمین مانا۔ دوسرے قبرستان کا آدھا حصہ جہاں تک پختہ قبریں تھیں مسلمانوں کو ملا۔ باقی وہ حصہ جس میں ساری قبریں کچی تھیں اور مٹ چکی تھیں کفار کے پاس پہنچ گئے۔ کیونکہ اس قبرستان کے حدود پختہ قبروں کی حد سے قائم کئے گئے باقی کا بیعانمہ درست مانا گیا۔ اس سے مجھے پتہ لگاکہ اب ہندوستان میں کچھ قبریں پختہ ضرور بنوانی چاہئیں کیونکہ یہ بقاء وقف کا ذریعہ ہیں جیسے مسجد کے لیے مینارے۔
ماہ جولائی 1960ء کے اخبارات میں مسلسل یہ خبر شائع ہو رہی ہے کہ مولوی اسمٰعیل صاحب کے پیر سید احمد صاحب بریلوی کی قبر جو بالاکوٹ میں واقع ہے شکستہ حالت میں ہے اس کی مرمت کی جاویگی اور اس پر گنبد وغیرہ تعمیر کیا جویگا۔ سبحان اللہ سید احمد صاحب جنہوں نے عمر بھر مسلمانوں کی قبریں ڈھائیں اب خود ان کی قبر پر گنبد بنے گا۔ 29 جولائی 1960ء کو صدر پاکستان ایوب خان نے قائد اعظم کی قبر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ جس میں ایک لاکھ مسلمان شریک تھے اس عمارت پر 75 لاکھ روپیہ خرچ ہوگا اس تقریب میں دیوبندیوں کے پیشوا مولوی احتشام الحق نے بھی شرکت کی۔ ان کی تقریر راولپنڈی کے جنگ 12اگست 1960ء میں شائع ہوئی آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ مبارک ہو کہ بانی انقلاب آج بانی پاکستان کی قبر پر سنگ بنیاد رکھ رہا ہے اب تک پاکستان کی حکومتوں نے اس مبارک کام میں بہت سستی کی تھی۔ مسلمانو! یہ ہیں وہ دیوبندی جو اب تک مسلمانوں کی قبریں اکھڑواتے تھے جنہوں نے نجدی حکومت کو مبارک باد کے تار دئیے تھے کہ اس نے صحابہ و اہل بیت کی قبریں اکھیڑ دیں آج قائد اعظم کی قبر پر گنبد وغیرہ تعمیر ہونے پر مبارک باد دے دہے ہیں۔ ان کا کتابی مذہب اور ہے۔ زبانی مذہب اور عملی مذہب کچھ اور چلو تم ادھر کو ہوا جدھر کی۔ بہرحال مزار پر گنبد کے دیوبندی بھی قائل ہوگئے۔
عمارت قبور پر اعتراضات کے جوابات میں
مخالفین کے اس مسئلہ پر صرف دو ہی اعتراض ہیں اول تو یہ کہ مشکوٰۃ باب الدفن میں بروایت مسلم ہے۔
نھی رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبور وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ
"حضور علیہ السلام نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں پر گچ کی جاوے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جاوے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جاوے۔"
نیز عام فقہاء فرماتے ہیں کہ یکرۃ البناء علی القبور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین کام حرام ہیں قبر کو پختہ بنانا۔ قبر پر عمارت بنانا، اور قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا۔
جواب قبر کو پختہ کرنے سے منع ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت کی طرف ہے اس کو پختہ کیا جاوے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا۔ ان یجصص القبور یہ نہ فرمایا گیا۔ علی القبور دوسرے یہ کہ عامۃ المسلمین کی قبور پختہ کی جاویں کیونکہ یہ بے فائدہ ہے تو معنٰی یہ ہوئے کہ ہر قطر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ تیسرے یہ کہ قبر کی سجاوٹ، تکلف یا فخر کے لیے پختہ کیا۔ یہ تینوں صورتیں منع ہیں اور اگر نشان باقی رکھنے کے لیے کسی ولی اللہ کی قبر پختہ کی جاوے تو جائز ہے۔ کیونکہ حضور علیہ السلام نے عثمان ابن مغلعون کی قبر پختہ پتھر کی بنائی۔ جیسا کہ پہلے باب میں عرض کیا گیا۔ لمعات میں اسی ان یخصص القبور کے ماتحت ہے لما فیہ من الزینۃ والتکلف کیونکہ اس میں محض سجاوٹ اور تکلف ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر اس لیے نہ ہو تو جائز ہے ان ینی علیہ یعنی قبر پر عمارت بنانا منع فرمایا۔ اس کے بھی چند معنٰی ہیں اولاً تو یہ کہ خود قبر پر عمارت بنائی جاوے اس طرح کہ قیر دیوار میں شامل ہو جاوے۔
چنانچہ شامی باب الدفن میں ہے۔
وتکرہ الزیادۃ علیہ لما فی المسلم نھی رسول اللہ علیہ السلام ان یجصص القبر وان یبنی علیہ
قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا۔"
درمختار اسی باب میں ہے
وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البناء [قبر پر مٹی زیادہ کرنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کی درجہ میں ہے- اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر بنانا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجاوے اور گنبد نانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ حکم عامۃ المسلمین کے لیے قبروں کے لیے ہے۔ تیسرے یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جوکہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے۔
اللھم لا تجعل قبری ووثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قوم ن اتخذوا قبور انبیاءھم مسجد
"اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جاوے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔"
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے۔ قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد۔ قبر کو مسجد بنانے کے یہ معنٰی ہیں کہ اس کی عبادت کی جاوے۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف سجدہ کیا جاوے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں۔
قال البیضاویلما کانت الیھود والنصری یسجدون لقبور الانبیاء تعظیما لشانھم ویجعلونھا قبلۃ یتوجھون فی الصلوٰۃ ونحوھا واتخذوھا اوثانا لعنھم ومنع المسلمون عن مثل ذلک
"بیضاوی نے فرمایا کہ جبکہ یہود و نصارٰی پیغمبروں کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان قبور کر انہوں نے بت بنا کر رکھا تھا لٰہذا اس پر حضور علیہ السلام نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا۔"
یہ حدیث معترض کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہوگئی۔ معلوم ہوگیا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا۔ چوتھا یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے۔ بلکہ زہد و تقوٰی کی تعلیم ہے جیسے کہ ہم پہلے باب میں عرض کرچکے کہ رہنے کے مکانات کو پختہ کرنے سے بھی روکا گیا۔ بلکہ گرا دئیے گئے پانچویں یہ کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کے لیے عمارت بنائی جاوے تو جائز ہے۔
ہم نے توجہیں اس لیے کیں کہ بہت سے صحابہ کرام نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنت صحابہ ہے چنانچہ حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور علیہ السلام کی قبر انور کے گرد عمارت بنائی۔ سیدنا ابن زبیر نے اس پر خوبصورت عمارت بنائی۔ حسن مثنی کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالا جس کو ہم بحوالہ مشکوٰۃ باب البکاء سے نقل کر چکے۔ زوجہ حسن مثنی کے اس فعل کے ماتحت ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں۔
الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ وحضور بالمغفرۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت
"ظاہر یہ ہے کہ یہ قبہ دوستوں اور صحابہ کے جمع ہونے کے لیے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قراٰن کریں اور دعائے مغفرت کریں۔ لیکن ان بی بی کے اس کام کو معض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہل بیت کی شان کے خلاف ہے۔"
صاف معلوم ہوا کہ بلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کے لیے جائز ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبر پر قبہ بنایا۔
متقٰے شرح مؤطاء امام مالک میں ابو عبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔
وضربہ عمر علی قبر زینب جحش وضربۃ عائشۃ علے قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات
"حضرت عمر نے زینب حجش کی قبر پر قبہ بنایا حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن حضرت علی) نے ابن عباس کی قبر پر قبہ بنایارضی اللہ عنہم اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیے جو کہ اس کو فخر دریا کے لیے بنائے۔"
بدائع الصنائع جلد اول 320 میں ہے۔
روی ان عباس لما مات بالطائف صلے علیہ محمد ابن الحنیفۃ وجعل قبرہ مسنما وضرب علیہ فساطا
"جبکہ طائف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان پر محمد ابن حنیفہ نے نماز پڑھی اور ان کی قبر ٍڈھلوان بنائی اور قبر پر قبہ بنایا۔"
عینی شرح بخاری میں ہے ضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس ان صحابہ کرام نے یہ فعل کیے اور ساری اُمت روضۃ رسول علیہ السلام پر جاتی رہی۔ کسی محدث کسی فقیہ کسی عالم نے اس روضہ پر اعتراض نہ کیا لٰہذا اس حدیث کہ وہ ہی توجہیں کی جاویں جو کہ ہم نے کیں۔ قبر پر بیٹھنے کے معنٰے ہیں قبر پر چڑھ کر یہ منع ہے نہ کہ وہاں مجاور بننا۔ مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ مسلمانوں کی والدہ حضور علیہ السلام کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے ہی کھلوا کر زیارت کرتے۔ دیکھو مشکوٰۃ باب لدفن۔ آج تک روضہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مجاور رہتے ہیں کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا۔
اعتراض2 :۔ مشکوٰۃ باب الدفن میں ہے۔
وعن ابی ھیاج ن الا سدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا الا طمسۃ ولا قبرا مشرفا الا سؤیتہ۔
"ابو ہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو۔"
بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب الجریر علی البقر میں ہے۔
ورای ابن قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انرعہ یا غلام فانما یظللہ عملہ
"ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کر رہے ہیں۔"
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہئیے۔
نوٹ ضروری: اس حدیث کو آر بنا کر نجدی وہابیوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت کے مزارات کو گرا کر زمین کے ہموار کر دیا۔
جواب: جن قبروں کو گرا دینے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں۔ نہ کہ مسلمین کی۔ اس کی چند وجوہ ہیں۔ اولاً تو یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیے بھیجتا ہوں۔ جس کے لیے مجھے حضور علیہ السلام نے بھیجا۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہو سکتیں۔
کیونکہ ہر صحابی کے دفن میں حضور علیہ السلام شرکت فرماتے تھے۔ نیز صحابہ کرام کوئی کام بھی حضور علیہ السلام کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لٰہذا اس وقت جس قدر قبور مسلمین بنیں۔ وہ یا تو حضور کی موجودگی میں یا آپ کی اجازت سے تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں اور ان کو مٹانا پڑا۔ ہاں عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں۔
بخاری شریف صفحہ61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان میں ہے۔
امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فنبشت
"حضور علیہ السلام نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں۔"
بخاری شریف جلد اولصفحہ61 میں ایک باب باندھا ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیۃ کیا مشرکین زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جاویں اسی کی شرح میں حافظ ابن حجر فتح الباری شرح بخاری جلد دوم صفحہ26 میں فرماتے ہیں۔
ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم
"یعنی ماسوا انبیاء اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت ہے۔"
دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز نبش قبور الدارسۃ اذالم یکن محرمۃ"اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ فی جاویں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں۔"
اس حدیث اور اس کی شرح نے مخالف کی پیش کردہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کردی کہ مشرک کی قبریں گرائی جاویں۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا کیوں ذکر ہے۔ مسلمان کی قبر پر فوٹؤ کہاں ہوتا ہے؟ معلم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں۔ کیونکہ ان کی قبروں پت میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے۔ تیسرے اس لیے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبر کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کے لیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلاف سنت ہے۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی تو اونچی قبریں اکھڑوائیں اور ان کے فرزند محمد ابن حنیفہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنائیں۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی۔ تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے۔ اولاً اونچی نہ بناؤ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ۔ قرآن پاک چھوٹا سائز چھاپنا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکرہیت۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہ جلاؤ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا وہاں جوتہ سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدی نے صحابہ کرام کے مزارات گرائے اور معلوم ہوا کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقتلون اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے سند لانا محض بے جا ہے وہ تو خود فرما رہے ہیں کہ میت پر اعمال کا سایہ کافی ہے جس سے معلوم ہوا کہ اگر میت پر سایہ کرنے کے لیے قبہ بنایا تو جائز ہے۔
عینی شرح بخاری اسی حدیث ابن عمر کے ماتحت فرماتے ہیں۔
وھی اشارۃ الی ان ضرب الفسطاط لغرض صحیح لاتشترمن الشمس مثلا للاحیاء لا لا ضلال المیت جاز
"ادھر اشارہ ہے کہ قبر پر صحیح غرض کے لیے خیمہ لگانا جیسے کہ زندوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے نہ کہ میت کو سایہ کرنے کے لیے جائز ہے۔"
اس کا تجربہ خود مجھ کو اس طرح ہوا کہ میں ایک دفعہ دوپہر کے وقت ایک گھنٹہ کے لیے سیالکوٹ گیا۔ بہت شوق تھا کہ ملا عبدالحکیم فاضل سیالکوٹی رلیہ الرحمۃ کے مزار پر فاتحہ پڑھوں۔ کیونکہ ان کے حواشی دیکھنے کا اکثر مشغلہ رہا وہاں پہنچا۔ قبر پر کوئی سائبان نہ تھا۔ زمین گرم تھی دھوپ تیز تھی بمشکل تمام چند آیات پڑھ کر فوراً وہاں سے ہٹنا پڑا۔ جذبہ دل دل ہی میں رہ گیا۔ اس دن معلوم ہوا کہ مزارات پر عمارت بہت فائدہ مند ہیں۔ تفسیر روح البیان پارہ26 سورہ فتح زیر آیت اذیبا یعونک تحت الشجرۃ ہے کہ بعض مغرور لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ آج کل لوگ اولیاء اللہ کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں لٰہذا ہم ان قبروں کو گرائیں گے تاکہ یہ لوگ دیکھ لیں کہ اولیاء اللہ میں کوئی قدرت نہیں ہے ورنہ وہ اپنی قبروں کر گرنے سے بچا لیتے-
فاعلم ان ھذا الصنیع کفر صراح ماخوذ من قول فرعون ذرونی اقتل موسی ولیدع وبہ انی اخاف ان یبدل دینکم اور ان یظھر دی الارض الفساد
"تو جان لو کہ یہ کام خالص کفر ہے فرعون کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ چھوڑ دو مجھ کو میں موسٰی کو قتل کردوں وہ اپنے خدا کو بلالے میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارا دین بدل دیگا یا زمین میں فساد پھیلا دیگا۔"
مجھ سے ایک بار کیسی نے کہا کہ اگر اولیاء اللہ یا صحابہ کرام میں کچھ طاقت تھی تو نجدی وہابیوں سے اپنی قبروں کو کیوں نہ بچایا؟ معلوم ہوا کہ یہ محض مردے ہیں پھر ان کی تعظیم و توقیر کیسی؟ میں نے کہا کہ حضور علیہ السلام سے پہلے کعبہ معظمہ میں تین سو ساٹھ 360 بت تھے اور احادیث میں ہے کہ قریب قیامت ایک شخص کعبہ گرادے گا۔ آج لاہور یں مسجد شہید گنج سکھوں کا گوردوارہ بن گئی۔ بہت سی مساجد ہیں جو کہ برباد کر دی گئیں تو اگر ہندو کہیں کہ اگر خدا میں طاقت تھی تو اس نے اپنا گھر ہمارے ہاتھوں سے کیوں نہ بچالیا۔ اولیاء اللہ یا ان کی مقابر کی تعظیم ان کی محبوبیت کی وجہ سے کی ہے۔ نہ کہ محض قدرت سے جیسے کہ مساجد اور کعبہ معظمہ کی تعظیم ابن سعود نے بہت سی مسجدیں بھی گرادیں جیسے کہ مسجد سیدنا بلال کوہ صفاء پر وغیرہ وغیرہ
درجہ :
حق اہلسنت
Wednesday, August 25, 2010
Saturday, August 14, 2010
ذاکر نالائق کی گستاخیاں آقا ﷺ کی شان میں
زرا اس شیطان کے الفاظ اور انداز بیان پر غور کریں
درجہ :
ذاکر نالائق
Saturday, March 20, 2010
Friday, March 19, 2010
Wednesday, March 10, 2010
Saturday, March 6, 2010
Tuesday, March 2, 2010
Sunday, February 28, 2010
بسنت کیا ہے؟
یہ تہوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے گستاخ، ایک ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے
اہم انکشاف: بسنت کو صرف کھیل اور آمد موسم بہار کی نوید قرار دینے والوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ آزادی سے پہلے تک بسنت کو ہندوانہ تہوار تصور کیا جاتا تھا۔ شہر لاہور میں بسنت کو بطور تہوار منانے کا آغاز تقریبا اڑھای سو سال پہلے 1747ء میں ایک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ہندو "حقیقت راے" کی سمادھی ہندووں کی ہڈیاں دفن کرنے کی جگہ پر ہندوون کے پیلے رنگ کے کپڑے پہن کر حاضری دینے سے ہوا۔ چنانچہ ایک مسلمان مورخ سید عبداللطیف اور ایک ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کا ایک ہندو نوجوان حقیقت راے اس وقت کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتا تھا۔ اس کا مسلمان لڑکوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ مشتعل ہو کر اس ہندو نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔اس گستاخی پر گرفتار ہوا اور عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزاے موت سنایی۔ غیر مسلموں نے سزا ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوے۔ اس وقت کے پنجاب کے غیرت مند مسلمان گورنر نواب بہادر "یا بقول ڈاکٹر بی ایس نجار" نواب زکریا نے کفار کا مطالبہ رد کرتے ہوے اس گستاخ ہندو کی سزاے موت کی توثیق کر دی۔ پہلے اس کو کوڑے مارے گیے، پھر سر قلم کر دیا گیا۔ ہندووں کے نزدیک حقیقت راے نے ہندو دھرم اور اپنے اوتاروں کے لیے قربانی دی تھی، انہوں نے اسے اپنا ہیرو قرار دیا اور اس کی یاد منانے کے لیے رنگ بکھیرا، پتنگ بازی کی، اس تہوار کا نام بسنت رکھا گیا۔ پھر ایک ہندو سرمایا دار کالورام نے اس کی یاد قایم رکھنے کے لیے اس کی سمادھی پر مندر تعمیر کرایا اور اس پر بسنت میلے کا آغاز کر دیا۔ شہر لاہور کی مشرقی جانب کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) میں اب بھی قبرستان کے ساتھ اس کی یادگار موجود ہے۔
(بحوالہ "تاریخ لاہور" صفحہ ۳۲۴ از سیر عبداللطیف و بحوالہ "پنجاب آخری مغل دور میں" صفحہ۲۷۹ از ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار)
گستاخ رسول ﷺ، ہندو کا دن بسنت منانے والے مسلمانو!
قیامت کے روز حضور ﷺ کو کیا منہ دکھاو گے؟ تمہیں حضور ﷺ کی شفاعت کیسے نصیب ہو گی؟
اہم انکشاف: بسنت کو صرف کھیل اور آمد موسم بہار کی نوید قرار دینے والوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ آزادی سے پہلے تک بسنت کو ہندوانہ تہوار تصور کیا جاتا تھا۔ شہر لاہور میں بسنت کو بطور تہوار منانے کا آغاز تقریبا اڑھای سو سال پہلے 1747ء میں ایک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ہندو "حقیقت راے" کی سمادھی ہندووں کی ہڈیاں دفن کرنے کی جگہ پر ہندوون کے پیلے رنگ کے کپڑے پہن کر حاضری دینے سے ہوا۔ چنانچہ ایک مسلمان مورخ سید عبداللطیف اور ایک ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کا ایک ہندو نوجوان حقیقت راے اس وقت کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتا تھا۔ اس کا مسلمان لڑکوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ مشتعل ہو کر اس ہندو نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔اس گستاخی پر گرفتار ہوا اور عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزاے موت سنایی۔ غیر مسلموں نے سزا ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوے۔ اس وقت کے پنجاب کے غیرت مند مسلمان گورنر نواب بہادر "یا بقول ڈاکٹر بی ایس نجار" نواب زکریا نے کفار کا مطالبہ رد کرتے ہوے اس گستاخ ہندو کی سزاے موت کی توثیق کر دی۔ پہلے اس کو کوڑے مارے گیے، پھر سر قلم کر دیا گیا۔ ہندووں کے نزدیک حقیقت راے نے ہندو دھرم اور اپنے اوتاروں کے لیے قربانی دی تھی، انہوں نے اسے اپنا ہیرو قرار دیا اور اس کی یاد منانے کے لیے رنگ بکھیرا، پتنگ بازی کی، اس تہوار کا نام بسنت رکھا گیا۔ پھر ایک ہندو سرمایا دار کالورام نے اس کی یاد قایم رکھنے کے لیے اس کی سمادھی پر مندر تعمیر کرایا اور اس پر بسنت میلے کا آغاز کر دیا۔ شہر لاہور کی مشرقی جانب کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) میں اب بھی قبرستان کے ساتھ اس کی یادگار موجود ہے۔
(بحوالہ "تاریخ لاہور" صفحہ ۳۲۴ از سیر عبداللطیف و بحوالہ "پنجاب آخری مغل دور میں" صفحہ۲۷۹ از ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار)
گستاخ رسول ﷺ، ہندو کا دن بسنت منانے والے مسلمانو!
قیامت کے روز حضور ﷺ کو کیا منہ دکھاو گے؟ تمہیں حضور ﷺ کی شفاعت کیسے نصیب ہو گی؟
Saturday, February 20, 2010
Tuesday, February 16, 2010
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مسلمانوں کے لئے کھلا چلینج
hilde.haugsgjerd@aftenposten.no
Mobil number ,,0047.95251522
.................................................. .......
2۔۔۔ گستاخ اخبار کےچیف ایگزیکٹوکرسٹن سکوجن ای میل
kristin.skogen.lund@aftenposten.no
Mobil number... 004790558003
.................................................. ..
3... aften posten گستاخ رسول اخبار کے ای میل ایڈریسز
آن لائن ایڈیٹر
.................................................. ...
پاکستان میں ناروے کے سفارتخانے کو فون ،خط یا ای میل سے اپنے ردعمل ضرور آگاہ کریں
پوسٹ بکس نمبر 1336 اسلام آباد
فون۔۔ 4- 092،512279720
فیکس ۔۔ 092،512279726
ای میل ،، emb.islamabad@mfa.no
.
.
.
.
منجانب ۔۔۔ تحریک حرمت رسول ﷺWednesday, February 3, 2010
Friday, January 22, 2010
Wednesday, January 6, 2010
شرک کی حقیقت
اَلحَمدُ لِلہِ رَبِ العَالَمِینَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ المُرسَلِینَ اَمَّا بَعدُ فَاَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَیطٰنِ الرَّجِیمِؕ بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِؕ دُرُود کی فضیلت سرکارِ مدینہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے۔ اللہ عزوجل کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی ﷺ پر دُرُود بھیجیں تو اُن کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ بحوالہ، مسند ابی یعلٰی ، مسند انس بن مالک ، ج ۳ ، ص۹۵ شرک کی تعریف شرک کا معنیٰ ہے اللہ عزوجل کے سوا کسی کو واجبُ الوجود یا مستحق ِ عبادت جاننا یعنی اُلُوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا ۔ بہار شریعت ، حصہ ۱ ، ص ۹۶ واجبُ الوجود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود ضروری اور عدم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، جس کو کبھی فنا نہیں ، کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ جو خود اپنے آپ سے موجود ہے اور یہ صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ ہمارا اسلام ، حصہ سِوُم، ص ۹۵ شرک کی اقسام شرک فی الذات ۔ شرک فی العبادات ۔ شرک فی الصفات شرک فی الذات۔ اللہ عزوجل کے سوا کسی کو ازلی ابدی مستقل غیر محتاج تسلیم کرنا۔ شرک فی العبادات۔ کسی کو ازلی ابدی سمجھ کر اُس کی بندگی کرنا۔ شرک فی الصفات۔ کسی غیر اللہ میں اللہ جیسی صفتِ ذاتی و ازلی و ابدی تسلیم کرنا۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایک ہوتی ہے عبادت اور ایک ہوتی ہے عبادت ۔ کسی کی تعظیم کرنا شرک نہیں مثلاً والدین کو آتا دیکھ کر تعظیماً اُٹھنا شرک نہیں ہے ۔ یا کسی بزرگ کو آتا دیکھ کر اُٹھنا شرک نہیں ہے۔ بعض کم فہم لوگ تعظیم کو بھی شرک ٹھہراتے پھرتے ہیں مگر خود اپنے استاذ کو آتا دیکھ کر اُٹھ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں اور اُن کے آگے جھکتے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر اِن کی بات مان ہی لی جائے کے تعظیم شرک ہے تو اللہ عزوجل نے قرآن میں تعظیم کا حکم کیوں دیا اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَعَزَّرْتُمُوۡہُمْ سورہ مائدہ ، آیت ۱۲ ترجمہ ۔ میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ سورہ الاعراف ، آیت ۱۵۷ ترجمہ ۔ وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ سورہ حج ، آیت ۳۰ ترجمہ ۔ اور جو اللّٰہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ سورہ حج ، آیت ۳۲ ترجمہ ۔ اور جو اللّٰہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے اس کے علاوہ بھی اللہ تعالٰی نے کئی مقامات پر تعظیم کا حکم فرمایا ہے اگر تعظیم کرنا شرک ہوتا تو اللہ تعالٰی قرآن میں تعظیم کا حکم کیوں ارشاد فرماتا؟ یہی کم فہم لوگ شرک فی الصفات کو آڑ بنا کر اپنے کم فہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ کے سوا کوئی نہیں دیتا اس کے سوا کسی سے مانگنا شرک ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کو حاجت روا ماننا شرک ہے اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے۔ تو یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ اس طرح ہر کسی کو مشرک کہتے پھرنا خود ایمان سے پھرنے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی کو بالذات مدد کرنے والا تسلیم کرتا ہے تو وہ بلا شبہ کافر ہے مگر یہ نہیں کہ اب کسی سے مدد مانگ ہی نہیں سکتے یہ بلکل غلط ہے۔ جیسے حضور داتا علی ہجویری رحمت اللہ علیہ کو داتا کہا جائے تو دشمنان اسلام اس کو کفر و شرک کہنا شروع کر دیتے ہیں کہتے ہیں داتا تو اللہ ہے کسی بندے کو داتا کہنا کفر ہے تو سنو میرا رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔ اِنَّ اللہَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ سورہ مؤمن ، آیت ۲۰ ترجمہ ۔ بیشک اللّٰہ ہی سنتا دیکھتا ہے۔ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ نَّبْتَلِیۡہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا سورہ دہر ، آیت ۲ ترجمہ ۔ بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ وہ اسے جا نچیں تو اسے سنتا دیکھتا کردیا یہاں دیکھو اللہ عزوجل نے قرآن میں اپنے لئے سمیع اور بصیر کا لفظ استعمال فرمایا اور آدمی کیلئے بھی سمیع اور بصیر کا لفظ استعمال فرمایا ہے یقیناً سمجھ والوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہو گی کہ لفظ ایک جیسے آ سکتے ہیں مگر معنیٰ میں برابری نہیں آ سکتی ۔ اللہ جب دیتا ہے تو کسی سے لے کر نہیں دیتا لیکن جب کسی ولی اللہ سے مانگا جائے تو خود سے نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ سے لے کر دیتے ہیں اللہ کی صفت ذاتی ہے اور مخلوق میں ہر کسی کی صفت عطائی ہے۔ اگر اب کوئی کہے کہ داتا صاحب تو وہ کافر نہیں ہے ۔ اللہ بھی داتا ہے لاہور والے بھی داتا ہیں لفظوں میں برابری ہے مگر معنیٰ میں نہیں ہو سکتے ۔ کہ اللہ کو جب داتا کہا جاتا ہے تو وہ اس کی بالذات صفت ہے اور جب داتا علی ہجویری رحمت اللہ علیہ کو داتا کہا جائے تو اُن کی یہ صفت عطائی ہے۔ میرا رب عزوجل فرماتا ہے۔ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ سورہ البقرہ ، آیت ۱۴۲ ترجمہ ۔ بیشک اللّٰہ آدمیوں پر بہت مہربان مہر والا ہے لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ سورہ توبہ ، آیت ۱۲۸ ترجمہ ۔ بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ اس آیت میں دیکھو اللہ عزوجل نے اپنے لیے بھی رؤف و رحیم کے الفاظ استعمال فرمائے اور اپنی نبی ﷺ کے لیے بھی یہی الفاظ استعمال فرمائے۔ مزید دیکھو میرا رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَنۡتَ مَوْلٰىنَا فَانۡصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیۡنَ سورہ البقرہ ، آیت ۲۸۶ ترجمہ ۔ تُو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو مولانا کہہ کر پکارا گیا ہے اور وہابی جو کہ کہتا ہے اللہ کہ سوا کوئی مولا نہیں ہے تو وہابی اپنے مولوی کو مولانا کیوں کہتے ہیں اس آیت کی رو سے اللہ کو بھی مولانا کہا گیا ہے اب چاہیے تو یہ کہ اللہ کہ سوا کسی کو مولانا نہ کہا جائے مگر یہ کہتے ہیں ۔ اللہ بھی مولانا مگر کھاتا کچھ نہیں اور وہابی بھی مولانا مگر کچھ چھوڑتا نہیں۔ قرآن پاک میں سورہ یوسف میں وہ واقعہ موجود ہے جہاں قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دو ساتھی آپ علیہ السلام سے اپنا خواب بیان کرتے ہیں تو آپ نے جوتعبیر ارشاد فرمائی اُس کو اللہ عزوجل نے قرآن میں ارشاد فرمایا۔ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیۡ رَبَّہٗ خَمْرًا سورہ یوسف ، آیت ۴۱ ترجمہ۔ اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا اب بتاؤ کہ بادشاہ کو رب کہا گیا ہے۔ اب کیا کہو گے۔ رب کا معنٰی ہے پالنے والا ۔ اگر لفظِ رب کی نسبت اللہ کی طرف کی جائے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے رب کی عطا سے پالنے والا ۔ اور اگر اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے حقیقی پالنے والا۔ عقلمنداں را اشارہ کافی است دعاؤں کا طالب فقیرِ اہلسنت ابوالغوث عطاری غفر لہ الباری abu_ul_ghouse@yahoo.com abu_ul_ghouse@hotmail.com
Keep your friends updated— even when you're not signed in.
Keep your friends updated— even when you're not signed in.
درجہ :
ابوالغوث عطاری,
مضامین۔
Saturday, January 2, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)