Saturday, December 5, 2009

زواجِ المسیار ، متعہ یا Legal Prostitution از حشام احمد سید

متعہ کے متعلق ایک مضمون نظر سے گزرا آپ کی بصارتوں کی نظر (مصنف کی ہر بات سے بلوگ کا متفق ہونا ضروری نہیں )۔ 
Tuesday, June 30, 2009

زواجِ المسیار ، متعہ یا Legal Prostitution

حشام احمد سید



پچھلے کئی صدیوں سے امت مسلمین عجیب خلفشار کا شکار ہے ۔ بہت سے معاشرتی مسائل کو سلجھانے کی بجائے یہ الجھانے پہ تلی ہوئی ہے۔ اب تک تو جماعت اہل سنت نے فقہ جعفریہ کے فتوے متعہ ( عارضی شادی ) کی خلاف ایک محاذ آرائی کر رکھی تھی ، نہ جانے کتنی کتابیں اس موضوع پہ لکھی گئیں اور علمأ کے کتنے شب و روز اسی مناظرے میں صرف ہوئے ، قرآن کی کتنی آیتوں کو کھنگالا گیا ، کتنی حدیثیں اس کے رد میں سنائی گئیں ، کتنی روایتوں سے اسے حرام قرار دیا گیا لیکن یہ کیا ہوا کہ مکہ مکرمہ میں اسلامی فقہ اکیڈمی نے اپنے ١٨ ویں اجلاس میں مختلف النوع شادی کے بارے میں فتوے جاری کئے جس میں خاص طور پہ طلاق کے ساتھ مشروط شادی ، عارضی شادی ، خفیہ شادی ، روایتی شادی ، فرینڈ شپ شادی ، سول میرج اور تجرباتی شادی شامل ہیں۔ اس اکیڈمی نے زواج المسیار یا اس جیسی دیگر شادیوں کی اجازت دی جس میں شادی کے جملہ شرائط و ضوابط پورے کئے گئے ہوں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی کے تحت ہے لیکن یہ ایک آزاد خود مختار اسلامی و علمی ادارہ ہے، جو امت مسلمہ کے منتخب علما و فقہا پر مشتمل ہے ۔ اس اجلاس میں ٦٠ علما و فقہا شریک تھے ۔ شادی کی شرائط جو الازہر یونیورسٹی کے علما سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں کہ :

١۔ شادی کے لیے ولی امر اور گواہوں کی موجودگی ٢ ۔ مہر ٣۔کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو یعنی مسلم عورت کا نکاح غیر مسلم مرد سے نہیں ہوسکتا اسی طرح مشرکہ سے نکاح نہیں ہو سکتا ٤ ۔شادی کا اعلان ضروری نہیں ہے اسے خفیہ رکھا جا سکتا ٥ ۔اگر عورت رہائش کے حق سے دستبردار ہو جائے تو بھی ایسی شادی جائز ہے۔

زواج المسیار ایسی شادی ہے کہ جس کے تحت بیوی مکان ، نان نفقہ اور دولت کی تقسیم سے مکمل یا جزوی طور پر دستبردار ہو جاتی ہے اور اس بات پہ راضی ہوتی ہے کہ شوہر دن رات میں جب چاہے اس کے یہاں آئے جائے۔

اسلامی فقہ اکیڈمی کے اس فتوے سے زبردست اور متضاد رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ مرد وزن نے فوری طور پہ اس سے استفادہ کیا اور کہنے لگے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، یہ شادی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور خفیہ بھی اور مرد کو شادی کی مروجہذمہ داریوں سے بھی مبرہ کر دیتی ہے سو بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا جواز فراہم کر تی ہے۔جو علما اس کے حق میں ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ نوجوان مرد و عورت کو حرام کاری کی بجائے اس شادی کا فائدہ اٹھانا چاہیے ( یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ بسم اللہ پڑھ کر وہسکی پی جا سکتی ہے ) ، موافقت میں جو لوگ ہیں ان کی وضاحت یہ بھی ہے کہ المسیار سے معمر کنوارپن کا مسئلہ اور سیٹلائٹ چینل و دیگر فواحشات و شہوانی محرکات کی فتنہ انگیزیوں سے پیدا ہونے والی اخلاقی انحراف کا خاتمہ ہوگا۔ ( رات بھر خوب پی صبح ہوئی توبہ کر لی : رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی )، یعنی بجائے اس کے کہ لوگوں کی تربیت ان معنوں میں کریں کہ اخلاق باختہ پروگرام نہ دیکھیں ور نہ پروڈیوس کریں اور غصِ بصر اور باطنی طہارت کی اہمیت کا احساس دلائیں یا معاشرے میں ایسے قوانین نافذ کریں جس سے طلاق کم سے کم ہو اور اعلانیہ و حلال شادیوں کی آسانی ہو، اس میں پیدا کی ہوئی انفرادی اور معاشرتی یا ثقافتی رکاوٹ دور ہو ۔ ان علما کو یہی نظر آیا کہ عورت و مرد کے لئے کوئی ایسی ترکیب نکال لی جائے کہ عارضی اور خفیہ طور پہ آگ کو پی جائیں یہ پانی کر کے اور اسے حلال سمجھ کے ضمیر کی ہر خلش سے بھی آزاد ہوجائیں۔ شہوانی محرکات کا جہاں تک تعلق ہے تو صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے ۔

ہیجانی کیفیت طاری ہو تو فرینڈشپ ، عارضی و خفیہ شادی کر کے کسر پوری کر لیں۔ کھلے عام نہ سہی چھپا کے ہی سہی شہوانیات تو عام ہو ہی گئی نا ؟ عورتوں کو پابند کروچادر اور سر سے پیر تک نقاب میں ڈھانکے رہو لیکن انہیں اپنی نفسانی خواہشات کا ایک ذریعہ بنائے رہو ۔ چونکہ یہ جواز عورت و مرد کے لیے یکساں ہے سو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عورت پہ ظاہراً کوئی ظلم ہو رہا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ یہ صاف دیکھتی ہے کہ اس کا زیادہ نقصان بھی عموماً عورتوں کو ہی ہوگا سوائے ان چند کے جن کے لئے کوئی اقتصادی یا مالی مسئلہ نہیں یا وہ جو پہلے ہی اپنی فطری شرم و حیا سے گریز کئے بیٹھی ہیں۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اس سے عورتوں کے وقار و عزت میں مزید کمی آئے گی ۔پہلے ہی ہر معاشرے میں چاہے وہ شرق ہو کہ غرب مختلف حیلے بہانے سے مردوں نے عورتوں کو استعمال کیا ہوا ہے اور اسے اپنی حیوانیت کی
بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ایک طرف چادر و نقاب پہنا کے لیکن اپنی پوشیدہ حرم سراؤں کو آباد کر کے تو دوسری طرف اسے آزادی اور برابری کا دلاسہ دے کر سرِعام برہنہ کر دیا ہے۔

ساری دنیا میں لے دے کے اسلام ہی وہ فکری اثاثہ ہے یا طرزِ حیات ہے جو عورتوں کی حرمت ، محافظت، عزت اور وراثت کا داعی ہے اور فطری توازن کے ساتھ مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریوں کی تفصیل فراہم کرتا ہے اور برابری کا ہی درجہ نہیں بلکہ بعض تعلقات و معاملات میں عورتوں کو زیادہ پر وقار بناتا ہے اور انہیں فوقیت بخشتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ داعیانِ اسلام نے ایک علاقائی تہذیب ، کسی قبیلے کی مخصوص ثقافت کو اسلام بنا کر اس کی روح کو پامال کیا ہوا ہے۔

اگر یہ معاملہ اور فتویٰ صرف ایک مخصوص معاشرت و علاقے اور ملک کے شہریوں کے لئے ہے تو اسے اسلام کی ٹوپی کیوں پہنا دی گئی ہے ؟ اسے اسلام کا عمامہ کیوں باندھ دیا گیا ہے ؟ آپ کا جو جی چاہے کرتے رہیں ۔کس نے روکا ہے دورِ جاہلیہ کا رویہ اپنا لیں ؟ کچھ کا کہنا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں بھی لوگ تجارت کے لئے کسی اور شہر جاتے تھے تو وہاں شادیاں کر لیتے تھے سو اسے اسلامی قراردیا جا سکتا ہے۔ قرون اولیٰ میں کوئی ضروری تو نہیں کہ سارے لوگ اسلام کی روح کو سمجھ پائے ہوں۔ انسانی فکر مخصوص دور میں منجمد نہیںہو ئی، یہ سیل رواں ہے اور زمانے کے تغیرات کے ساتھ منسلک ہے اور پھر ایک زمانے سے جو رسم رچی بسی ہووہ فوری طور پہ ختم بھی نہیں کی جا سکتی ، لوگ دور جاہلیہ میں لوٹنے کا کوئی نہ کوئی جواز نکال لیتے ہیں۔اگر لوگ پچاس پچاس بیویاں رکھتے تھے، یا ایک عورت کئی مردوں سے شادی کر لیا کرتی تھی ، یا لوگ قوم لوط جیسی حرکات میں مبتلا تھے یا لونڈیوں کے رکھنے کا عام رواج تھا تو ان ساری باتوں سے کیا اب ایسا کرنے کا جواز نکلتا ہے ؟ اسلام نے زیادہ سے زیادہ چار اعلانیہ شادیوں کی اجازت پورے انصاف اور ذمہ داریوں کے ساتھ دی ہے لیکن کوئی اس اجازت کو صرف دولت و ثروت کا سہارا لے کر اپنی شہوت رانی اور کثرت ازواج کا ذریعہ اس طر ح بنا لے کہ ایک وقت میں چار رکھے لیکن سیکڑوں سے ہم بستری کر کے انہیں طلاق دیتا رہے توکیایہ عمل جائز ہوگا اور اسے اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ انسانیت سے گری ہوئی بات او رعمل کبھی اسلامی نہیں ہو سکتی۔

کچھ خواتین اور مرد یہ بھی کہتے ہیں کہ جب علمانے اس کا فتویٰ دے دیا تو ہم اس پہ اعتراض کر نے والے کون ہوتے ہیں ؟ چند علما کیا خدائی فوجدار ہیں ؟ اسلام کیا چند علما کی بے عقلی کا مرہونِ منت ہے یا کسی خاص علاقے کے لوگوں کے طرز ِ فکر کا پابند ہے۔ یہ ایک عالمی و آفاقی دین ہے۔ پورے عالم اسلام میںلوگ صرف ٦٠ علما کے پیروکار تو نہیں ؟ کیا قرآن ہر ایک کو مخاطب کر کے نہیں کہتا کہ افلا تعقلون ، افلا تدبرون ؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ، کیا تم تدبر و غور و فکر سے کام نہیں لیتے ؟

جو لوگ یا علماصرف دور سے تماشہ دیکھتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ فرینڈشپ یا عارضی یا خفیہ شادی کی اجازت کم سے کم ہم اپنی بیٹیوں کو تو نہیں دے سکتے۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر لیکن اس کے پیچھے کوئی خیال اور تو نہیں ؟کیوں صاحب کیابیٹے ہی ہر جگہ منہ مارتے پھریں ، کیا کسی اور کی بیٹیوں ، ماؤں ، بہنوں کی کوئی عزت نہیں ؟ کیا دوسروں کے لئے آپ کی حمیت و شرافت و وقار کاپیمانہ دوسراہے ؟ کچھ کا کہنا ہے کہ اگر مردوں کو ہر قسم کی معاشرتی ذمہ داری سے آزادی مل گئی تو یہ ایک اور فتنہ کا دروازہ کھول دے گا۔ المسیار کی موجودگی میں کون اعلانیہ شادی کی مصیبت اٹھائے گا ۔یہ سارے کا سارا نظام Legal Prostitution نظر آتا ہے۔ یہ معاملہ لگتا ہے ہمیں بھی رفتہ رفتہ مغرب زدہ بنا دے گا جہاں اب اکثر مرد اور عورت میاں بیوی کی طرح بغیر نکاح و شادی کے ساتھ رہتے ہیںاور بچے بھی ہوتے رہتے ہیں ۔

بیویاں بھی بدلتی رہتی ہیں خفیہ طور پہ اور شوہر بھی بدلتے رہتے ہیں خفیہ طور پہ ۔ وہاں کی حکومت اور معاشرت نے ان ساری باتوں کو قبول کیا ہوا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو انسانی حقوقِ آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس پہ گرفت کرتے ہیں ۔یہ صرف اصطلاح کا فرق ہے اگر وہ اسے انسانی حقوقِ آزادی کی بجائے حیوانی اور شیطانیحقوقِ آزادی کہا کریں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ویسے بھی بعض فلسفیوں اور محققین کے نزدیک انسان حیوانِ ناطق ہی تو ہے۔

انسانی معاشرے میں مرد و زن سے متعلق جو مسائل درپیش ہو تے ہیں، ان کا حل درجہ ذیل ہیں :
١۔ خواتین یامرد کنوارے ہوں۔ عمر بڑھ رہی ہو ، کوئی بر نہیں مل رہا ہو تو فرد و معاشرے کے غیر ضروری اصراف، رسوم و پابندیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ شادیوں میں کوئی دشواری نہ پیدا ہو۔

٢۔ معاشرے میں بیوگان کی تعداد بڑھ رہی ہو تو ان کے لئے بھی وہی کچھ کیا جانا چاہیے جو اوپر بیان ہوا ہے تاکہ انہیں بھی تحفظ فراہم ہو۔ نکاحِ بیوگان کی ترغیب دی جائے،

٣۔ معاشرے میں طلاق شدہ خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہو تو ان کے لئے بھی وہی کیا جانا چاہیے جو اوپر بیان ہوا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ طلاق کی کثرت کو ختم کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔شادی میں کفو کا خیال رکھا جائے اور مردوں و عورتوں کی باطنی اصلاح کی جائے تاکہ دونوں شادی کی حرمت ، ایک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال محبت کے ساتھ ساتھ رکھیں۔ ایسے ماحول اور طریقۂ زندگی سے بھی گریز کرنا چاہیے جس میں شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے سے بے زاری پیدا ہو۔ اس کے علاوہ ایسے رئیسوںاور بگڑے ہوئے لوگوں کی تربیت اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے جو عورتوں کو اپنی دولت کا سہارا لے کے یا ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر یا کسی اور مقصد کے لئے اپنی ہوس کی تسکین کے لئے شادی کرتے ہیں اور اسے تنگ کرتے ہیں یا طلاق دے ڈالتے ہیں۔

٤۔ عورتوں کی آبادی کی کثرت ہو تو اس کا علاج کثرتِ ازواج ہے لیکن اعلانیہ حلال شادی ہوخفیہ نہیں۔ یہ بھی قدرت کا عجیب انتظام ہے ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عورتوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے ، مردوں کی عمر عورتوں کے مقابلے میں عموماً کم ہوتی ہے ، فرض کیجیے کہ کہیں مردوں کی آبادی زیادہ ہو بھی تو وہ کسی اور ملک یا علاقے کی کسی ٧
عورت سے اعلانیہ شادی کر سکتا ہے۔ اسلام میں اس کی بڑی گنجائش رکھی گئی ہے۔عورتیں بھی اگر دوسری یا تیسری بیوی نہیں بننا چاہتیں تو کسی بھی مسلمان مرد سے شادی کر سکتی ہیں چاہے وہ ان کے خاندان کا یا ملک کا ہو یا نہ ہو۔ اسلام مذہبِ کائنات ہے اس میں رنگ و نسل کی پیچیدگیاں نہیں ۔

بہت ساری دشواریاں گروہی ، رنگ و نسل کی متعصبانہ رویہ سے پیدا ہوتی ہیں۔کسی بیماری یا سببِ دیگر کے تحت اگر مرد یا عورت حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوں تو عورت اگر چاہے تو اپنی فطری شرم و حیا کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے وکیلوں کے زریعے یا قانونی طور پہ خلع لے سکتی ہے اور دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ ایک وقت میں اس کے دو شوہر نہیں ہو سکتے لیکن مرد کے لئے پہلی یا کسی بیوی کو طلاق دینا ضروری نہیں۔ وہ انسانی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ایسی بیوی سے مشفقانہ رویہ رکھ سکتا ہے اور اعلانیہ دوسری شادی کر سکتا ہے۔

مسائل چاہے جو بھی ہوں ، خفیہ ، عارضی ، فرینڈ شپ ، ویک اینڈ یا طلاق کے ساتھ مشروط شادیاں کبھی بھی اسلامی نہیں کہلائی جا سکتیں۔ ان ساری تجاویز میں بے وفائی ، نفاق ، سخت دلی ، ہوس پروری ، نفس پرستی اور حیوانیت کا عنصر نمایاں ہے جو اسلام کے روح کے خلاف ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی غیر اخلاقی عمل کی اصلاح کسی دوسرے غیر اخلاقی عمل سے نہیں ہوتی۔ انسانی ارتقا کو اب اس حد تک تو پہنچ جانا چاہیے کہ مردو زن ایک دوسرے کو انسان ہی سمجھیں اور اس ناطے ایک دوسرے کا احترام ایسے ہی کریں جیسے وہ خود اپنا کرتے ہیں ۔ عورتوں کو کال کوٹھری میں بند کر کے اور اسے سر سے پیر تک مبحھوس کر کے انسانی معاشرت ترقی کر سکتی ہے نہ اسے برہنہ کر کے اورمحافل کی زینت بنا کے اسے آزادی اور برابری کا خواب دکھا کر ۔ احترامِ آدمیت یا انسانیت کے تقاضے اور ہیں ۔ اصل کام اپنے اندر کے جانور اور حیوانیت کو لگام دینے کا ہے۔ اس کی تربیت کر کے انسان بنانے کی اشد ضرورت ہے خصوصاََ مردوں کو اس لئے کہ عورتوں میں ایک فطری حیا عموماً پائی جاتی ہے۔ افسوس کہ ہم اپنی وحشت و بے عقلی میں اللہ کے پیغام کو سمجھ نہیں پائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رسی ، اور دامنِ رسول ۖ کو تھامے رہیے اور عقل کے دریچے کھولئے ، حکمتِ پیغامِ
الٰہی کو سمجھئے، صرف رسوم کی آبیاری ، بے عقلی کے فتاویٰ اور اندھی تقلید سے کام نہیں چلے گا۔

کہہ جاتا ہوں میں زورِ جنوں میں ترے اَسرار
مجھ کو بھی صِلہ دے مری آشفتہ سری کا

(حفیظ تائب)۔ خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گُلِ چیدہ

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گُلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ

تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ

اے ہادیء برحق تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ

اے رحمتِ عالم ، تری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ

تو روحِ زمن ، روحِ چمن ، روحِ بہاراں
تو جانِ بیاں ، جانِ غزل ، جانِ قصیدہ

(حفیظ تائب)۔

سلام اس پر ، خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے از حافظ لدھیانوی

سلام اس پر ، خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے
ثنا خواں خود خدائے پاک ہے جو سب کا آقا ہے

سلام اس پر کہ توڑا زور جس نے بت پرستوں کا
علم اونچا کیا جس نے جہاں کے زیر دستوں کا

سلام اس پر کہ جس کی پاک صورت پاک سیرت تھی
سلام اس پر کہ جس کی زندگی خلق و مروت تھی

سلام اس پر کہ بعد اس کے نہ آئے گا نبی کوئی
نہ ان سا کوئی آیا ہے ، نہ آئے گا نبی کوئی

سلام اس پر کہ جس نے درد کی دولت عطا کردی
سکھائے جس نے کمزوروں کو آئین جواں مردی

سلام اس ذات اقدس پر کہ حامی ہے یتیموں کا
چلام ان جانِ اطہر پر ، جو والی ہے غریبوں کا

سلام اس پر ، اندھیرے میں اجالا کردیا جس نے
خدا کے نور سے دونوں جہاں کو بھر دیا جس نے

سلام اس پر غلاموں کو عطا کی جس نے سلطانی
سکھائے جس نے مظلوموں کو اندازِ جہاں بانی

سلام اس پر ، ملی ہے مہر و مہ کو جس سے تابانی
سلام اس پر کہ پائی چرخ نے جس سے درخشانی

سلام اس پر کہ جو مطلوب و مقصودِ خدا ٹھہرا
سلام اس پر کہ جو ٹوٹے دلوں کا آسرا ٹھہرا

از حافظ لدھیانوی

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اس پر ابوسفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر کہ جس کی سادگی درسِ بصیرت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے فضل کے موتی بکھیرے ہیں
سلام اس پر بروں کو جس نے فرمایا کہ "میرے ہیں"

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھر دیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر بھلا سکتے نہیں جس کا کبھی احساں
سلام اس پر مسلمانوں کو دی تلوار اور قرآں

سلام اس ذات پر جس کے پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

از ماہر القادری

امیر المومنین سیدنا علی حیدر

 
بابِ دارالحکمت و گنجینہ ذوقِ وفا
کون تھا پروردہ آغوشِ ختم الانبیاء

ماہرِ علم حدیث و عالم ام الکتاب
کون تھا جس کو پیمبر نے پکارا، ابوتراب

کون تھا رمز آشنا نکتہ شناسِ معرفت
کون فی الدنیا اَنی تھا اور اَنی فی الاخرت

کون تھا پروانہِ شمع حقیقتِ؟ کون تھا
کون تھا دیوانہِ فخرِ رسالت کون تھا

کون تھا پردہ کشائے زندگیِ مستعار
کون تھا وہ تیغ زن جو موت کو کرتا تھا پیار

کون تھا خیبر کے میداں میں رہا جو محترم
کون تھا جنگِ احد میں جو رہا ثابت قدم

کون تھا وہ جنگِ خندق میں ہوا جو سرفراز
کون تھا تیغوں کے سائے میں پڑھی جس نے نماز

منبعِ جود و سخا ، سرچشمہ لطف و عطا
کون تھا کرّار جس کو خود پیمبر نے کہا

کون تھا جس کو لسانِ صدق قرآں نے کہا
کون تھا ہاروں جسے محبوبِ یزداں نے کہا

بندہِ قدسی صفت ، شیرِخدا ، نفسِ نبی
وہ علی تھا ، مصدر اوصاف، معراجِ خودی


امیر المومنین سیدنا عثمانِ غنی

 
قائدِ راہِ شریعت ، ترجمانِ دینِ حق
حامی دستورِ فطرت ، حافظِ آئینِ حق
سابق الایماں ، وفا پرور ، حقیقت آشنا
رنگ و بوئے باغِ ملت ، پیکرِ صدق و صفا
وہ غنی جس کا عرب بھر میں نہ تھا کوئی جواب
وہ سخی ، جس کی سخاوت کا نہ تھا کوئی حساب
وہ حیا پرور ، حیا پر جس کی حوریں بھی فدا
جس کی آمد پر سنبھل بیٹھیں ، حبیبِ کبریا
ہر نظر جس کی حیات افروز ایماں آفریں
ہر نفس جس کا نویدِ عشق ، پیغامِ یقیں
وہ بلند اقبال ، ذوالنورین ، وہ عالی مقام
نیک سیرت ، نیک فطرت، خوش ادا شیریں کلام
مستِ صہبائے نبوت جرعہ نوشِ جامِ حق
جامعِ وحی مقدس ، کاتب الہامِ حق
وہ کہ جس کا عہد تھا اک فارغ البالی کا عہد
امن کا ، آرام کا ، راحت کا ، خوشحالی کا عہد
وہ کہ جس کو دین کی دنیا کی دولت بھی ملی
پھر خلافت بھی ، شہادت کی سعادت بھی ملی

امیر المومنین سیدنا عمر فاروق

 
اک مدبر ، اک مفکر ، ایک مردِ باکمال
ایک مصلح ، ایک رہبر ، اک فقیہہ بے مثال

نعرہ خار اشگاف و ضربتِ باطل شکن
جذبہِ دشمن شکار و قاطعِ دام کہن

جلوہ صبح درخشاں ، تابشِ روئے حیات
سطوتِ دینِ مقدس ، پرتو مہرِ صفات

حاملِ سوزِ دروں ، بالغ نظر ، روشن ضمیر
پیکرِ اوصافِ لاثانی امامِ بے نظیر

کس قدر پُرعظمت و پُر رعب تیرا نام تھا
کفر تیرے نام ہی سے لرزہ براندام تھا

یوں مٹایا زعمِ قیصر ، سطوتِ شاہنشہی
سرنگوں سرکش ہوئے ٹوٹا طلسمِ خواجگی

مصر و ایران و دمشق و روم و موصل اور شام
تیرے ہی حسن و تدبر سے ہوئے زیرِ نظام

اے سراپا عزم و استقلال امام العادلیں
رہنمائے جادہِ عرفاں ، امیر المومنیں

تیرے ہی حق میں ہے یہ فرمودہ خیرالبشر
"بعد میرے گر نبی ہوتا کوئی ، ہوتا عمر"

از عارف سیمابی

امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق

 
سب سے پہلے جس نے دین و کفر میں تفریق کی

فسق زارِ قوم میں اسلام کی تصدیق کی

سب سے پہلا مردِ مومن ، مصطفے کا جاں نثار

اولیں پروانہ شمعِ رسالت ، یارِ غار

پیکرِ خلق و مروت ، حاملِ سوزِ یقیں

حافظِ ناموسِ وحدت ، واقفِ اسرارِ دیں

وہ خلافت کا ستونِ اولیں ، دیں کی بہار

عرصہ گاہِ جنگ میں بھی تھا جو مردِ کارزار

وہ عروجِ علم و عرفاں ، وہ سیاست کا کمال

جس کی اربابِ سیاست میں نہیں کوئی مثال

جو سمجھتا تھا زر و دولت کا اک مدّ فضول

بس تھا جس کے واسطے اللہ اور اس کا رسول

وہ نہ تھی جس کو گوارا فرقتِ ختم الرسل

مر کے بھی حاصل ہے جس کو قربتِ ختم الرسل



ہو خلافت یا امامت حق کی یا تصدیق ہو

اولیت ہر جگہ حاصل ہوئی صدیق کو

لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں ، نبھائی رکھی سوہنیا

آقا دے غلاماں دا میں ادنٰی غلام ہاں
لوکی کہندے خاص میں تے عاما تووی عام ہاں
پردہ جئے پایا ہے تے پائی رکھی سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

کسے نوں میں اپنا دکھڑا سنایا نہی
تیرے بعدو کسے مینوں سینے نال لایا نہی
سینے نال لایا ہے تے لائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

حشر دہاڑے جد عملاں نو تولنا
شرم دے مارے میں تے کجھ وی نہی بولنا
دامن وچ اپنے لکائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

ناں تیرا لے کے آقا شان میں وی پائی اے
تیرے ہتھ ڈور سائیاں آپے تو چڑھائی اے
تے چڑھی ہوئی گڈی نوچڑھائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

ناں تیرا لے کے آقا غلام سارے سجے نے
قسم خدا دی تساں عیب سارے کجے نے
لکے ہوئے عیباں نو لکائی رکھیں سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا

ضیاء تیری آل دا ادنٰی غلام اے
ایدھے نالوں ودھ ہور لینا کی انعام اے
بنیا غلام میں بنائی رکھی سوہنیا
چنگے ہا کے مندے ہاں، نبھائی رکھی سوہنیا
لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا


آمین

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ھے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ھے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا

تو بشر بھی ھے مگر فخرِ بشر بھی تو ھے
مجھ کو تو یاد ھے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ھے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ھے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ھے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ھے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصی تیرا



احمد ندیم قاسمی

Friday, December 4, 2009

سونا جنگل، رات اندھیری، چھائی بدلی کالی ہے مولانا امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ

مولاناامام  احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کی یہ نعتیہ غزل مجھے بے حد پسند ہے۔ اس قدر محاوروں کا استعمال اور وسیع مفہوم رکھنے والے اشعار۔ ملاحظہ ہو:

سونا جنگل، رات اندھیری، چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو، چوروں کی رکھوالی ہے

آنکھ سے کاجل صاف چرالیں، یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تُو نے نیند نکالی ہے

یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مَت کیسی متوالی ہے

سونا پاس ہے، سُونا بن ہے، سونا زہر ہے اُٹھ پیارے
تُو کہتا ہے نیند ہے میٹھی، تیری مت ہی نرالی ہے

آنکھیں ملنا، جھنجھلا پڑنا، لاکھوں جمائی انگڑائی
نام پہ اٹھنے کے لڑتا ہے، اٹھنا بھی کچھ گالی ہے

جگنو چمکے، پتا کھڑکے، مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجائے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے

بادل گرجے بجلی تڑپے دھک سے کلیجا ہوجائے
بَن میں گھٹا کی بھیانک صورت، کیسی کالی کالی ہے

پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی، کچھ سنبھلا پھر اوندھے منہ
مینھ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے

ساتھی ساتھی کہہ کے پکاروں، ساتھی ہو تو جواب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پٹکوں، چل رے مولیٰ والی ہے

پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے

تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سورج ہو
دیکھو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے

دنیا کو تُو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے

شہد دکھائے زہر پلائے، قاتل ڈائن شوہر کُش
اس مُردار پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے

وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے

مولیٰ تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈگری تو اقبالی ہے
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطاء ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی

حق سے پائ وہ شانِ کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی

زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچا لی
وہ محمد کا پیارا نواسہ جس نے سجدے میں گردن کٹا لی

حشر میں دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی

عاشق مصطفی کی ازاں میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو کیا ازان تھی ازانِ بلالی

کاش پر نم دیر نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصفطی کو سناوں تھام کر ان کے روضے کی جالی

بحث تقلید حصہ دوم

الحمد للہ ربّ ِ العالمین خَالِقِ السَّمٰوتِ وَالارضِینَ والصّلٰوۃ والسّلام علٰی مَن کَانَ نبیّا وّ اٰدَمُ بینَ الماءِ و َ الطِّین اَجملِ الا جمَلین اَ کمل الا کملینَ سیّدنا محمد وّ اٰلہ و اصحابہ و اھلِ بیتہ اجمعین

بحث تقلید حصہ دوم

مسئلہ تقلید پر مخالفین دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ایک واہیات طعنے جن کا جواب دینا ضروری نہیں۔ دوسرے وہ جن سے غیر مقلدین بھولے بھالے مقلدبھائیوں کو دھوکا دیتے ہیں یہ حسب ِ ذیل ہیں۔

اعتراض: اگر تقلید ضروری تھی تو صحابہ کرام کس کے مقلد تھے؟ جب وہ کسی کے مقلد نہیں تھے ہم بھی کسی کے نہیں۔

جواب: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کسی کی تقلید کی ضرورت نہ تھی۔ جیسا کہ بحثِ تقلید حصہ اول میں بیان گزرا کہ مکلّف مسلمان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مجتہد(مقلَّد)۔دوسرا غیر مجتہد(مقلِّد)۔مجتہد وہ ہے جس میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہو کہ قرآنی اشارات و رموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصدکو پہچان سکےاس سے مسائل نکال سکے۔ ناسخ و منسوخ کا پورا علم جانتا ہو ۔ علمِ صرف و نحو و بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو۔ احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو۔اس کے علاوہ ذکی اور خوش فہم ہو (تفسیراتِ احمدیہ)۔

اب آپ ہی بتائیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جس قرآن کی آیتوں سے مسئلے استنباط کریں اس قرآن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حافظ تھے یا نہیں اور امام اعظم رحمۃاللہ علیہ جن احادیث سے مسئلے استنباط کرتے ہیں کیا وہ احادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو نہیں آتی تھیں تو جن آیات و احادیث پر امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کو اتنا کمال حاصل تھا اور وہ ناسخ و منسوخ کا علم جانتے تھے بلاغت کا علم جانتے تھے اور قرآنی اشارات و رموز کو سمجھتے تھے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ علم نہیں جانتے تھے صحابہ کرام تو ہر وقت صاحب قرآن ﷺ کہ خدمت میں رہتے تھے اور احادیث صحابہ کرام سے ہو کر ہی تو امام اعظم تک پہنچی تھیں امام شا فعی و امام مالک و امام حنبل رحمھم اللہ تعالٰی تک پہنچیں تھیں تو اب آپ فیصلہ کریں کہ صحابہ کرام مجتہد ہوئے کہ نہیں ۔ بالیقین تمام صحابہ کرام مجتہد تھے اور مجتہد پر تقلید واجب نہیں ہوتی ۔ کما مرّفی بحث تقلید حصہ اول

اور ہمارے چاروں ائمہ مجتہدین صحابہ ہی کی پیروی کرتے ہیں مشکٰوۃ باب فضائل صحابہ میں ہے

اصحابی کالنجوم اقتدیتم اھتدیتم میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان کی پیروی کرو ہدایت پا لو گے۔

علیکم بسنّتی و سنّۃ الخلفاءِ الراشدین۔ تم میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔

اب اعتراض والے کو سمجھ آ جانا چاہئے کو صحابہ کسی کے مقلد نہیں تھے کیوں کے وہ خود مجتہد تھے اور ہم مقلد اس لیے ہیں کے ہم مجتہد نہیں۔

اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نہر سے پانی اُسی کھیت کو دیا جاتا ہے جو دریا سے دور ہو مکبّرین کی آواز پر وہی نماز پڑھے گا جو امام سے دور ہو گا۔ جو کھیت دریا کے کنارے پر ہو اسے نہر کے پانی کی ضرورت نہیں اور جو صف اول میں ہو اسے مکبّر کی ضرورت نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی صف اول کے مقتدی ہیں۔ وہ بلا واسطہ حضور نبئ اکرم ﷺ سے فیض لینے والے ہیں ہم اس بحر رحمت سے دور ہیں لہٰذا ہم نہر کے حاجتمند ہیں ۔ اور ایک سمندر سے بے شمار نہریں جاری ہوتی ہیں آپﷺ کے سینہ انور میں موجزن سمندر ِعلم سے بھی بے شمار نہریں نکلی ہیں اور ہم اس نہر علم سے وابسطہ ہیں جو امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے سینے سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی اس لیے ہم حنفی کہلاتے ہیں اسی طرح جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ سے ہو کر آئی اس نہر سے وابسطہ شافعی کہلائے۔ و علی ھذا القیاس۔پانی سب کا ایک ہی ہے مگر نام جدا جدا اور ان نہروں کی ہمیں ضرورت پڑی نہ کہ صحابہ کرام کو جیسا کہ حدیث کی سند ہمارے لیے ہے صحابہ کے لیے نہیں۔

اعتراض: رہبری کیلئے قرآن و حدیث ہی کافی ہے ان میں کیا نہیں جو فقہ سے حاصل کریں کیوں کے قرآن میں ارشاد ہے کہ :

نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز جو اس روشن کتاب میں ہم نے لکھی نہ ہو" تو مجتہد کے پاس کیا لینے جائیں۔

جواب: قرآن و حدیث بے شک رہبری کیلئے کافی ہیں اور ان میں سب کچھ ہے۔ مگر ان سے مسائل نکالنے کی قابلیت ہوناچاہئے اور وہ قابلیت کیا ہے وہ پہلے اعتراض کے جواب میں تفسیرات احمدیہ کے حوالے سے گزر چکی اور جس میں یہ قابلیت ہو وہی مجتہد ہوتا ہے۔ اگر قابلیت نہ ہو گی تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے اور قرآن نے یہ بھی تو فرما دیا ہے نا

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّیَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ سورۃ البقرۃ ، آیت۲۶

ترجمہ: اللّٰہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے

اس کی تفسیر ہے کہ اس مثل سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے جن کی عقلوں پر جَہل نے غلبہ کیا ہے اور جن کی عادت مکابرہ و عناد ہے اور جو امرِ حق اور کھلی حکمت کے انکار و مخالفت کے خوگر ہیں اور باوجود یکہ یہ مثل نہایت ہی برمَحل ہے پھر بھی انکار کرتے ہیں اور اس سے اللّٰہ تعالٰی بہتوں کو ہدایت فرماتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے وہ جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیمُ المرتبہ چیز کی تمثیل کسی قدر والی چیز سے اور حقیر چیز کی ادنٰی شے سے دی جائے ۔ بحوالہ تفسیر خزائن العرفان

قرآن پاک ایک ایسا سمندر ہے کہ اس میں غوطہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ جس طرح سمندر سے موتی نکالنے کیلئے ماہر غوطہ خور کی ضرورت ہوتی ہے اسطرح اس قرآن پاک کے علمی سمندر سے مسئلوں کے موتی چننے کیلئے بھی ماہر مجتہد کی ضرورت ہوتی ہے اور طب کی کتابوں میں سب کچھ لکھا ہوتا ہے مگر نسخہ بنوانے کیلئے طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ ماہر ہوتا ہے اسی طرح قرآن پاک فصیح و بلیغ ہے ہر کسی کی سمجھ میں نہیں ا ٓتا۔اور قرآن و احادیث روحانی دوائیں ہیں اور امام روحانی طبیب

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ پر افتراء کا جواب

بعض لوگ امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں یہ افتراء باندھتے ہیں کہ ان کو تو حدیث آتی ہی نہیں تھی اور ان سے تو صرف سات احادیث مروی ہیں اور ان کے قول احادیث کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ جو حدیث صحیح ثابت ہو جائے وہ ہی میرا مذہب ہے لہٰذہ ہم نے ان کے قول حدیث کے خلاف پا کر چھوڑ دئیے

افتراء کا جواب

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث تھے ۔ بغیر حدیث دانی اس قدر مسائل کیسے استنباط ہو سکتے ہیں ان کی کتاب مسند امام ابو حنیفہ اور امام محمد کی کتاب مؤطا امام محمد سے ان کی حدیث دانی معلوم ہوتی ہے ۔ اب اعتراض کرنے والے سے یہ پوچھا جائے کے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایات بہت کم ملتی ہیں تو کیا وہ محدث نہ تھے ۔کمی روایات احتیاط کی وجہ سے ہے امام اعظم کی تمام روایات صحیح ہیں کیونکہ ان کا زمانہ حضور نبئ کریمﷺ سے بہت قریب ہے اورامام اعظم تابعی ہیں آپ کی ملاقات ۷ صحابہ کرام سے ہوئی ہے۔ بعد میں روایات میں ضعف آیا ہے جب زمانہ حضور نبئ کریمﷺ سے دور ہوا اسناد بڑھتی گئیں اور ضعف پیدا ہوا اور بعد کا ضعف امام اعظم کو مضر نہیں ۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ صحیح مسلم شریف باب فضائل صحابہ میں ہے

عن عمران بن حصین انَّ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ اَنَّ خیرکم قرنی ثمَّ الّذین یلونھم ثمّ الذین یلونھم قال عمرانُ فلا اَدری أ قال رسولُ اللہِ ﷺ بعدَ قرنہ مرَّتینِ او ثلاثۃ

ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک تم میں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اُسکے بعد والا جو اس سے ملا ہوا ہے پھر اسکے بعد والا جو اس سے ملا ہوا ہے اس کہ بعد راوی فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔

اب اس حدیث میں اگر کم از کم عدد بھی لیا جائے تب بھی تین زمانے بنتے ہیں ایک حضور ﷺ کا ایک اس کے بعد یعنی صحابہ کا اور ایک اس کے بعد یعنی تابعین کا ۔اور امام اعظم رضی اللہ عنہ تابعی ہیں اب آپ ہی بتائیں کے جب حضورﷺ نے تابعین کے زمانے کو بھی اچھا قرار دیا تو آج کے ان پڑھ مولوی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان پر اعتراض کرےان پر اعتراض آقا ﷺ کی حدیث پر اعتراض ہے کیونکہ آقا ﷺ نے تابعین کے زمانے کو بھی خیرالقرون میں ذکر فرمایا ہے

اللہ ہم سب کو استقامت فی الدّین ، بے ہدایتوں کو ہدایت اور بد مذہبوں اور گستاخوں سے پناہ میں رکھے آمین

دعاؤں کا طالب

فقیر اہلسنّت ابوالغوث عطاری غفرلہ الباری


خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وسلم) جانے

 
خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفٰی(صلی اللہ علیہ وسلم) جانے
مقام مصطفٰے(صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہے محمد کا خدا جانے

صدا کرنا میرے بس میں تھا میں نے تو صدا کردی
وہ کیا دیں گے میں کیا لوں گا سخی جانے گدا جانے

مریض مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں میں طبیبوں چھیڑو نہ مجھ کو
مدینے مجھ کو پہنچادو تو پھر دارالشفا جانے

میری مٹی مدینے پاک کی راہ میں بچھا دینا
کہاں لے جائیگی اس کو مدینےکی ہوا جانے

مدینے پاک کی تم مانگتے رہنا دعا یارو
اثر ہوگا نہیں ہوگا نبی جانے دعا جانے

ہمیں تو سرخرو ہونا ہے آقا(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہوں میں
زمانے کا ہے کیا ناصر بھلا جانے برا جانے

خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی ، لانبی بعدی۔ مظفر وارثی

نعت۔ خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی ، لانبی بعدی۔ مظفر وارثی
خود میرے نبی نے بات یہ بتا دی ، لانبی بعدی
ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ہادی ، لانبی بعدی

لمحہ لمحہ اُن کا طاق میں ہوا جگمگانے والا
آخری شریعت کوئی آنے والی اور نہ لانے والا
لہجہء خدا میں آپ نے صدا دی، لانبی بعدی

تھے اصول جتنے اُن کے ہر سخن میں نظم ہو گئے ہیں
دیں کے سارے رستے آپ تک پہنچ کر ختم ہو گئے ہیں
ذات حرفِ آخر ، بات انفرادی، لانبی بعدی

ارتقائے عالم کر دیا خدا نے صرف نام اُن کے
اُن کی خوش نصیبی جن کے ہیں وہ آقا ، جو غلام ان کے
گونجے وادی وادی آپ کی منادی، لانبی بعدی

اُن کے بعد اُن کا مرتبہ کوئی بھی پائے گا نہ لوگو
ظلی یا بروزی اب کوئی پیعمبر آئے گا نہ لوگو
آپ نے یہ کہہ کر مہر ہی لگا دی ، لانبی بعدی

مظفر وارثی

مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ۔ اقبال عظیم

مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ۔ اقبال عظیم
مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ

کسی کےہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

غلامانِ محمّدﷺ دور سے پہچانےجاتےہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ

کہاں میں اور کہاں اُس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزدیدہ دُزدیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نےدیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ

(اقبال عظیم)٫

میرا پیمبر عظیم تر ہے صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مظفر وارثی

نعت ۔مرا پیمبر عظیم تر ہے۔۔۔مظفر وارثی
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے



مظفر وارثی

حق آن لائن کے وزٹرز