Monday, September 13, 2010

متنفل(نفل پڑھنے والے ) کے پیچھے فرض نماز

متنفل کے پیچھے فرض نماز

مسئلہ شرعی یہ ہے نفل والے کے پیچھے فرض نماز ادا نہیں ہوتی ہان فرض والے کے پیچھے نفل نماز ہو جاتی ہے ، فرض نماز میں یہ بھی ضروری ہے کہ امام بھی فرض پڑھ رہا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امام و مقتدی دونوں ایک ہی نماز پڑھیں ، ظہر والا عصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا مگر غیر مقلد وہابی کہتے ہیں کہ فرض نماز نفل والے کے پیچھے جائز ہے۔ 
نوٹ ضروری: بالغ مسلمان کی کوئی نماز نابالغ بچے کے پیچھے جائز نہیں ، نہ فرض ، نہ تراویح نہ نفل۔ کیونکہ بچہ پر نماز فرض نہیں محض نفل ہے۔ اور بچے کی نفل شروع کرنے کے بعد بھی نفل ہی رہتی ہے۔ اگر بچہ نفل شروع کر کے توڑ دے تو اس پر اس کی قضاء نہیں لیکن بالغ کی شروع ہو کر ضروری ہو جاتی ہے ۔ اگر توڑ دے تو قضا لازمی ہے، اس لئے بالغ کوئی نماز بچہ کے پیچھے نہیں پڑھ سکتا ، مگر غیر مقلد وہابیوں کے نزدیک یہ سب جائز ہے ۔ اس لئے ہم اس باب کی بھی دو فصلیں کرتے ہیں ۔ پہلی فصل میں اس مسئلہ کا ثبوت ۔ دوسری فصل میں اس پر اعتراضات مع جوابات۔

پہلی فصل متفل کے پیچھے مفرض کی نماز نا جائز ہے

فرض نماز نفل والے کے پیچھے ادا نہیں ہو سکتی، اس پر بہت سی احادیث شریفہ اور قیاس شرعی شاہد ہیں ، جن میں کچھ پیش کی جاتی ہیں ۔
نمبر 1 تا 4:
ترمذی ، احمد ، ابو داؤد ( شافعی) مشکوٰۃ نے باب الاذان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الامام ضامن والموذن مؤتمن اللھم ارشد الائمۃ و اغفر للمؤذنین۔ “ فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے۔ اے اللہ اماموں کو ہدایت دے اور موذنوں کو بخش دے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام سارے مقتدیوں کی نمازوں کو اپنی نماز کے ضمن میں لئے ہوتا ہے اور ظاہر ہے۔ کہ اعلٰی شئے ادنٰی کو اپنے ضمن میں لے سکتی ہے نہ کہ ادنٰی شئے اعلٰی کو فرض نفل کو اپنے اندر لے سکتا ہے ، کہ نفل سے اعلٰی ہے ، نفل فرض کو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی کہ فرض سے ادنٰی ہے ایسے ہی ہر فرض نماز اپنے مثل فرض کو اپنے ضمن میں لے سکتی ہے۔ نہ کہ دوسرے فرض کو لہذا اگر امام نماز عصر پڑھ رہا ہو تو اس کے پیچھے ظہر کی قضاء نہیں پڑھی جا سکتی کہ نماز عصر نماز ظہر کو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی کہ یہ دونوں نمازیں علیحدہ ہیں ۔
 حدیث نمبر5: امام احمد نے حضرت سلیم سلمٰی سے روایت کی۔ انہ اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاذ ابن جبل یاتینا بعد ما ننام ونکون فی اعمالنا بالنھار فینادی بالصلوٰۃ فنخرج بالصلوٰہ الیہ فیطول علینا فقال لہ علیہ السلام یا معاذ لا تکن فتانا اما ان نصلی معنی و اما ان تخفف علٰی نومک۔ “ حضرت سلیم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ حضرت معاذ ابن جبل ہمارے پاس ہمارے سو جانے کے بعد آتے ہیں ، ہم لوگ دن میں اپنے کاروبار میں میں مشغول رہتے ہیں ۔ پھر نماز کی اذان دیتے ہیں ۔ ہم نکل کر ان کے پاس آتے ہیں وہ نماز بہت دراز پڑھاتے ہیں تو ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! فتنہ کا باعث نہ بنو تو میرے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو یا اپنی قوم کو ہلکی نماز پڑھایا کرو۔“
خیال رہے کہ حضرت معاذ ابن جبل نماز عشاء حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھ کر اپنی قوم میں پہنچ کر انہیں پڑھاتے اور دراز پڑھاتے تھے، جس کی شکایت بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوئی ۔ جس کا واقعہ یہاں ذکر ہوا۔
معلوا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ابن جبل کو اس کی اجازت نہ دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر اپنی قوم کو پڑھائیں ۔ کیونکہ نفل والے پیچھے فرض نماز جائز نہیں ۔ بلکہ فرمایا کہ یا میرے پیچھے پڑھو، تو قوم کو نہ پڑھاؤ۔ قوم کو پڑھاؤ تو میرے پیچھے نہ پڑھو۔ 

حدیث نمبر6: امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سے انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی سے حدیث روایت کی۔ قال اذا دخلت فی صلوٰہ القوم وانت لا تنوی صلوٰتھم لا تجزک وان صلی الامام صلوٰتہ و نوی الذی خلفہ غیرھا اجزات الامام ولم تجزھم رواہ الامام محمد فی الاٰثار۔ “ فرماتے ہیں ، کہ جب تم قوم کی نماز میں شامل ہو اور تم ان کی نماز کی نیت نہ کرو ۔ تو تمھیں نہ نماز کافی نہیں اور اگر امام ایک نماز پڑھے اور پیچھے والا مقتدی دوسری نماز کی نیت کرے تو امام کی نماز ہو جائے گی پیچھے والے کی نہ ہوگی۔“
اس سے معلوم ہوا کہ علماء ملت کا بھی یہ ہی مسلک ہے کہ نفل والے کے پیچھے فرض نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ایسے ہی ایک فرض کے پیچھے دوسرا فرض ادا نہین ہو سکتا۔
 عقل کا تقاضا بھی یہ ہے کہ نفل والے کے پیچھے فرض ادا نہ ہوا، کیونکہ امام پیشوا ہے مقتدی اس کا تابعدار امام کی نماز اصل ہے مقتدی کی نماز اس پر متفرع، اس لئے امام کے سہو سے مقتدی پر سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے۔
لیکن مقتدی کے سہو سے نہ امام پع سجدہ سہو واجب نہ خود اس مقتدی پر امام کی قرات مقتدی کیلئے کافی ہے۔ مگر مقتدی کی قران امام کیلئے کافی نہیں۔ حنفیوں کے نزدیک تو مطلقا وہابیوں کے نزدیک سورہ فاتحہ کے سوا میں اگر امام بے وضو نماز پڑھا دے تو مقتدی کی نماز بھی نہ ہوگی لیکن اگر مقتدی بے وضو نماز پرھ لے تو امام کی نماز درست ہو گی۔ امام سجدہ کی آیت آیتہ تلاوت کرے تو مقتدی پر سجدہ تلاوت واجب ہے مقتدی سنے یا نہ سنے ۔ لیکن اگر مقتدی امام کے پیچھے سجدہ کی آیت تلاوت کرے، تو نہ امام پر سجدہ تلاوت واجب نہ خود اس مقتدی پر۔ اگر امام مقیم ہو اور مقتدی مسافر تو مقتدی کو پوری نماز پڑھنی پڑے گا۔ لیکن اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم تو امام پوری نماز نہ پڑھے گا۔ بلکہ قصر کرے گا۔ اس قسم کے بہت مسائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مقتدی اور اس کی نماز تابع ہے امام اور امام کی نماز اصل و متبوع ہے متبوع تابع سے یا تو برابر ہو یا اعلٰی اور نفل نماز ، فرض نماز سے درجہ کم ہے۔ تو چاہیئے کہ نفل کے پیچھے فرض ادا نہ ہو، تاکہ اعلٰی و افضل ادنٰی کے تابع نہ ہو جاوے اسی طرح ایک فرض دوسرے فرض کے پیچھے نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ ایک نوع دوسرے نوع کے تابع نہیں ہو سکتی ۔ جب نماز عید پڑھانے والے امام کے پیچھے نماز فجر نہیں ہو سکتی غرضیکہ ضروری یہ ہے کہ یا تو امام و مقتدی کی نماز ایک ہو یا مقتدی کی نماز امام کی نماز سے ادنٰی ہو کہ امام فرض پڑھ رہا ہو۔

دوسری فصل اس مسئلہ پر اعتراضات و جوابات

ہم اس پر غیر وہابیوں کی وکالت میں اس کی طرف سے وہ اعتراضات بھی عرض کئے دیتے ہیں ، جو وہ کیا کرتے ہیں ، اور وہ بھی جو اب تک ان کو سوجھے بھی نہیں ہوں گے اور ان تمام کے جوابات دئے دیتے ہیں ۔
اعتراض نمبر1: عام محدثین نے حدیث روایت کی کہ معراج کی رات نماز پنجگانہ فرض ہوئیں ۔ اس کے بعد دو دن حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور کو پانچویں نمازیں پڑھائیں پہلے دن ہر نماز اول وقت میں دوسرے دن آخر وقت میں اور پھر عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان وقتوں کے درمیان ان نمازوں کت اوقات ہیں ۔ دیکھو حضور پر یہ نمازیں فرض تھیں اور حضرت جبریل علیہ السلام کیلئے نفل کیونکہ نماز پنجگانہ فرشتوں پر فرض نہیں مگر اس کے باوجود جبریل علیہ السلام امام ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی معلوم ہوا کہ نفل کے پیچھے فرض نماز درست ہے بلکہ اسلام میں پہلی نماز ایسی ہی ہوئی ۔ یعنی نفل کے پیچھے فرض اور فعل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اور سنت جبریل علیہ السلام بھی۔ جواب: اس کے دو جواب ہیں ایک یہ بتاؤ جبریل علیہ السلام یہ نمازیں پڑھانے رب کے حکم سے آئے تھے یا خود اپنی طرف سے آگئے بغیر حکم الہٰی۔ دوسری بات تو باطل ہے کیونکہ حضرت جبریل علیہ السلام بغیر حکم الہٰی کبھی نہیں آتے ۔۔ رب تعالٰی فرماتا ہے۔ وما نتنزل الا بامر ربک ۔ “ ہم رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔“
لہذا ماننا پڑے گا۔ کہ رب تعالٰی کے حکم سے آئے۔ جب حضرت جبریل کو رب نے ان نمازوں کا حکم دیا تو ان پر فرض ہو گئیں ۔ رب کا حکم ہی فرض بنانے والی چیز ہے۔ لہذا ان نمازوں میں نفل کے پیچھے فرض نہ پڑھے گئے۔
دوسرے یہ کہ ان دونوں میں نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نمازیں فرض تھیں نہ صحابہ پر کیونکہ اگرچہ معراج کی رات میں نمازیں فرض کر دی گئیں ۔ لیکن ابھی ان کا طریقہ اور وقت کی تعلین نہ دی گئی قانون تشریح سے پہلے واجب العمل نہیں ہوتا ۔ اس لئے تمام مسلمانوں نے نہ تو حضرت جبریل علیہ السلام کے پیچھے یہ نمازیں پڑھیں نہ ان دونوں کی نمازیں قضا کیں ۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کے پیچھے نفل پڑھے الحمد للہ کہ تمھارا اعتراض جڑ سے اکھڑ گیا۔

اعتراض نمبر 2: مسلم و بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ قال کان معاذ ابن جبل یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یاتی قومہ فیصلی بھم ۔ 
“ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر اپنی قوم میں آتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔“
دیکھو حضرت معاذ عشاء کے فرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھ لیتے تھے پھر اپنی قوم میں آکر پڑھاتے تھے آپ کی نماز نفل تھی اور سارے مقتدیوں کی نماز فرض ۔ معلوم ہوا کہ نفل والے کے پیچھے فرض پڑھنا سنت صحابہ ہے۔ 

جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نفل پڑھتے ہوں اور قوم کے ساتھ فرض ادا کرتے ہوں حضرت معاذ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فرض پڑھ لیا کرتا ہوں اور مقتدیوں کے آگے نفل کی نیت کرتا ہوں لہذا آپ کیلئے یہ حدیث بالکل بے فائدہ ہے ۔
دوسرے یہ کہ اس حدیث میں یہ نہیں آیا کہ حضرت معاذ نے یہ کام حضور کی اجازت سے کیا کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہو کہ فرض میرے پیچھے پڑھ لیا کرو اور نفل مقتدیوں کے ساتھ یہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا، جو کہ واقعہ میں درست نہ تھا ۔ بار ہا صحابہ کرام سے اجتہادی غلطی ہوئی۔
تیسرے یہ کہ ہم پہلی فصل میں حدیث پیش کر چکے ہیں ، کہ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حضرت معاذ کے اس عمل کی اطلاع دی گئی ، تو حضور نے انہیں اس سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ یا تو میرے ساتھ نماز پڑھا کرو یا مقتدیوں کو ہلکی نماز پڑھایا کرو، معلوم ہوا کہ حضرت معاذ کا یہ اجتہاد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے۔ 

اعتراض نمبر 3: بیہقی اور بخاری نے انہی حضرت جابر سے حضرت معاذ کا یہ ہی واقعہ روایت کیا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں ۔ 
قال کان معاذ یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم العشاء ثم یرجع الٰی قومہ فیصلی بھم العشاء وھی لہ نافلۃ ۔ “ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھ لیتے تھے۔ پھر اپنی قوم کی طرف لوٹتے تھے تو انہیں عشاء پڑھاتے تھے یہ نماز ان کی نفل ہوتی تھی۔“
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت معاذ ابن جبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفل نہ پڑھتے تھے۔ بلکہ فرض ہی پڑھتے تھے اور مقتدیوں کے آگے نفل ادا کرتے تھے ۔ لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ حضور کے پیچھے نفل اور مقتدیوں کے ساتھ فرض پڑھتے تھے۔
 جواب: آپ کی یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ حضرت کا یہ واقعہ نقل کر کے اپنے اندازے اور قیاس سے فرماتے ہیں،کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تھے، اس میں یہ نہیں کہ حضرت معاذ نے اپنی نیت و ارادے کا پتہ دیا ہو ۔ دوسرے کی نیت کے متعلق اس سے بغیر پوچھے ، یقین نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس میں یہ ہے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی۔ لہذا یہ حدیث کسی طرح آپ کی دلیل نہیں بن سکتی۔
اعتراض نمبر4: بخاری شریف نے حضرت عمرو ابن سلمہ سے ایک طویل حدیث روایت کی جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہماری قوم ایک گھاٹ پر رہتی تھی۔ جہاں سے قافلے گزرا کرتے تھے۔ میں حجازی قافلوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور قرآنی آیات پوچھتا رہتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد میرے والد مدینہ منورہ حاضر ہو کر اپنی قوم کی طرف سے اسلام لائے وہاں سے نماز کے احکام معلوم کئے ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذان کوئی دے دیا کرے مگرنماز وہ پڑھائے جسے زیادہ قرآن کریم یاد ہو۔ جب واپس ہوئے تو انہیں پتہ لگا کہ، کہ مجھے قرآن کریم سب سے زیادہ یاد تھا ۔ مجھے امام بنا دیا ، اس وقت میری عمر چھ سال تھی، میں قوم جو نماز پڑھاتا تھا۔ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ فکانت علی بردۃ کنت اذا سجدت قلصت عنی فقالت امراءۃ من الحی الا تغطون عنا است قارئکم فاشتروا فقطعوا لی قمیصا ۔ (مشکوٰۃ باب امامہ) 
“ مجھ پر ایک چادر ہوتی تھی ، کہ جب میں سجدہ کرتا تو کھل جاتی تو قبیلے کی ایک عورت نے کہا کہ اپنے قاری صاحب کے چوتڑ کیوں نہیں ڈھکتے تو لوگوں نے میرے لئے کپڑا خرید کر قمیص سی دی۔“
دیکھو عمرو ابن سلمہ صحابہ ہیں ، اور تمام صحابہ ان کے پیچھے نماز فرض پڑھتے ہیں ، عمرو ابن سملہ رضی اللہ عنہ کی عمر شریف چھ سال ہے ان پر کوئی نماز فرض نہیں بچے کی نفل بھی بہت ادنٰی ہوتی ہے لیکن جوان بڈھے ان کے پیچھے فرض ادا کرتے ہیں معلوم ہوا کہ نفل والے کے پیچھے فرض ادا ہو جاتے ہیں ۔
 جواب: اس کے وہ ہے جواب ہیں جو اعتراض نمبر 2 کے ماتحت گزرے ہیں ان کا یہ عمل اپنی رائے سے تھا نہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے چونکہ یہ حضرات تازہ اسلام لائے تھے ۔ احکام شرعی کی خبر نہ تھی بے خبری میں ایسا کیا ۔ اگر آپ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کرتے ہو تو یہ بھی مان لو کہ ننگے ز
امام کے پیچھے بھی نماز جائز ہے۔ کیونکہ عمرو ابن سلمہ خود فرماتے ہیں کہ میرا کپڑا اتنا چھوٹا تھا ، کہ سجدہ میں چادر ہٹ جاتی اور چوتڑ ننگے ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود یہ حضرات نمازیں پڑھتے رہے، کسی نے نماز نہ لوٹائی، کیوں مسائل شرعیہ سے بے خبری کی وجہ سے افسوس کہ آپ حضرات آنکھ بند کر کے حدیث پڑھتے ہیں۔
ان تمام گفتگو سے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کے متعلق وہابیوں کے پاس مرفوع حدیث موجود نہیں نہ حدیث ولی نہ فعلی یوں ہی چند شبہات کی بنا پر اس مسئلہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر محض عداوت سے تبرا کرتے اور انکی جناب میں گستاخیاں گالی گلوچ بکتے ہیں ۔
__________________

No comments:

Post a Comment

حق آن لائن کے وزٹرز