Monday, November 16, 2009

قاسم نانوتوی کی قبر

نانوتوی کی قبر اور وحی کا نزول

مولانا رفیع الدین صاحب مجددی سابق مہتمم دارالعلوم کا مکاشفہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی قبر عین کسی نبی کی قبر ہے ـ
( مبشرات دارالعلوم ص 36 مطبوعہ محکمہ نشر و اشاعت دارالعلوم دیوبند انڈیا )

ایک دن مولانا نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے شکایت کی کہ : ـ
جہاں تسبیح لےکر بیثھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے 100 سو 100 سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ـ
( سوانح قاسمی ج 1 ص 258 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

اس شکایت کا جواب حاجی صاحب کی زبانی کہ یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ( گرانی ) ہے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالی کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ـ
( سوانح قاسمی ج 1 ص 259 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

عین کسی نبی کی قبر ہے ، نبوت کا فیضان وحی کی گرانی اور کار انبیاء کی سپردگی ان سارے لوازمات کے بعد نہ بھی صریح لفظوں میں ادعائے نبوت کیا جائے جب بھی اصل مدعا اپنی جگہ پر ہے ـ

نانوتوی صاحب فرشتہ تھے
مولوی نظام الدین صاحب مغربی حیدرآبادی مرحوم جو مولانا رفیع الدین صاحب سے بیعت تھے اور صالحین میں سے تھے احقر سے فرمایا جبکہ احقر حیدرآباد گیا ہوا تھا کہ مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ میں پچیس برس مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلا وضوء نہیں گیا میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا ہے وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیا گیا ـ
( ارواح ثلثہ ص 231 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

دیوبندیوں سے یہ کوئی پوچھے کہ اپنے مولوی کی تعریف کرتے وقت نور و بشر کی بحث بھول گئے ـ یہ تو نانوتوی کو بشر ہی نہیں مانتے فرشتہ مانتے ہیں ـ بھول گئے تقویۃ الایمان کے مصنف اپنے غبی امام کی کفر کی فیکٹری ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

نانوتوی کا بولنا خدا کا بولنا ( معاذ اللہ عزوجل ) ـ
اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ارواح ثلثہ میں لکھتے ہیں کہ خاں صاحب نے فرمایا کہ مولانا احمد حسن صاحب بڑے معقولی تھے اور کسی کو اس میدان میں اپنا ہم عصر نہیں سمجھتے تھے ایک دن حضرت نانوتوی کا وعظ ہوا اور اتفاق سے سامنے وہی تھے اور مخاطب بن گئے اور معقولات ہی کے مسائل کا رد شروع ہوا ـ وعظ کے بعد انہوں نے کہا اللہ اکبر یہ باتیں کسی انسانی دماغ کی نہیں ہو سکتیں ، یہ تو خدا ہی کی باتیں ہیں ـ
( ارواح ثلثہ ص 232 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

نانوتوی کا دل کے خطرات جان لینا : ـ
ایک بار مولوی نانوتوی کا کسی گاؤں میں گزرا ہوا جہاں شیعوں کی کثیر آبادی تھی سنیوں کو جب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو موقع غنیمت جانا اور ان کے وعظ کا اعلان کر دیا اعلان سنتے ہی شیعوں میں ایک کھلبلی مچ گئی انہوں نے جلسہ وعظ کو ناکام بنانے کے لیے لکھنو سے چار مجتہد بلوائے اور پروگرام یہ طے پایا کہ مجلس وعظ میں چاروں کونوں پر یہ چاروں مجتہد بیٹھ جائیں اور چالیس اعتراض منتخب کرکے 10 دس 10 دس اعتراض چاروں پر بانٹ دیئے گئے کہ اثنائے وعظ میں ہر ایک مجتہد الگ الگ اعتراض کرے اور اس طرح جلسہ وعظ کو درہم برہم کے دیا جائے اب اس کے بعد کا واقعہ خود سوانح نگار کے الفاظ میں سنیے لکھتے ہیں کہ حضرت والا کی کرامت کا حال سنیے کہ حضرت نے وعظ شروع فرمایا جس میں گاؤں کی تمام شیعہ برادری بھی جمع تھی اور وہ وعظ ایسی ترتیب سے اعتراضوں کے جواب پر مشتمل شروع ہوا جس ترتیب سے اعتراضات کے کر مجتہدین بیٹھے تھے گویا ترتیب کے مطابق جب کوئی مجتہد اعتراض کرنے کے لیے گردن اٹھاتا تو حضرت اسی اعتراض کو خود نقل کرکے جواب دینا شروع فرماتے یہاں تک کہ وعظ پورے سکون کے ساتھ پورا ہوا ـ
( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 71 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

مولوی منصور علی خان بیان کرتے ہیں کہ
مجھے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا اور اس قدر اس کی محبت نے طبیعت پر غلبہ پایا کہ رات دن کے تصور میں رہنے لگا میری عجیب حالت ہوگئی تمام کاموں میں اختلال ہونے لگا حضرت مولانا نانوتوی کی فراست ( علم غیب ) نے بھانپ لیا ـ

لیکن سبحان اللہ تربیت و نگرانی اسے کہتے ہیں کہ نہایت بے تکلفی کے ساتھ حضرہت نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کردیا اور اس قدر بڑھایا کہ جیسے دو یار آپس میں بے تکلف دل لگی کرتے ہیں ـ

اب سنیے بے شرمی کی حد
یہاں تک کہ خود ہی اس محبت کا ذکر چھیڑا فرمایا ہاں بھائی وہ تمہارے پاس آتے بھی ہیں یا نہیں ؟ میں شرم و حجاب سے چپ رہ گیا تو فرمایا نہیں بھائی یہ حالات تو انسان پر ہی آتے ہیں اس میں چھپانے کی کیا بات ہے غرض اس طریق سے مجھ سے گفتگو کی کہ میری ہی زبان سے اس کی محبت کا اقرار کروالیا اور کوئی خفگی اور ناراضگي نہیں ظاہر کی بلکہ دلجو‏ئی فرمائی ـ
( ارواح ثلثہ ص 236 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )


مزید فرماتے ہیں :ـ

اس کے بعد جب میری بے چینی بہت زیادہ بڑھ گئی اور عشق کے ہاتھوں میں بالکل تنگ آگیا اور ناچار ایک دن مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا حضرت للہ میری اعانت فرمائیے میں تنگ آگیا ہوں اور عاجز ہو چکا ہوں اس لیے دعا فرما دیجیے کہ اس لڑکے کا خیال تک میرے قلب سے محو ہو جائے تو ہنس کر فرمایا کہ بس مولوی صاحب کیا تھک گئے بس جوش ختم ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت میں سارے کاموں سے بیکار ہو گیا نکما ہو گیا اب مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا خدا کیلئے میری امداد فرمائیے فرمایا بہت اچھا بعد مغرب جب میں نماز سے فارغ ہوں تو آپ موجود رہیں ـ

( ارواح ثلثہ ص 237 مکتبہ رحمانیہ لاہور )


نماز کے بعد کا واقعہ : ـ
میں مغرب کی نماز پڑھ کر چھتہ کی مسجد میں بیٹھا رہا جب حضرت صلوۃ الاوابین سے فارغ ہوئے تو آواز دی مولوی صاحب میں نے عرض دیا کہ حضرت حاضر ہوں میں سامنے حاضر ہوا اور بیٹھ گیا فرمایا کہ ہاتھ لاؤ میں نے ہاتھ بڑھایا میرا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر میری ہتھیلی کو اپنی ہتھیلی سے اس طرح رگڑا جیسے بان بنے جاتے ہیں خدا کی قسم میں نے بالکل عیانا دیکھا کہ میں عرش کے نیچے ہوں اور ہر چہار طرف نور اور روشنی نے میرا احاطہ کر لیا ہے گویا میں دربار الہی میں حاضر ہوں ـ
( ارواح ثلاثہ ص 237 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

علم غیب کی نقاب کشائی کی ذرا یہ شان ملاحظہ فرمائیے کہ پارس پتھر کی طرح ہتھیلی پر ہتھیلی رگڑتے ہی آنکھیں روشن ہو گئیں اور عرش تک کے سارے حجابات آن واحد میں اٹھ آئے اور صرف اٹھ ہی نہیں گئے بلکہ رنگین مزاج شاگرد کو پلک جھپکتے وہاں پہنچا دیا جہاں بجز سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عالم گیتی کا کوئی انسان اب تک نہیں پہنچ سکا ـ


ڈھیٹ اور بے شرم دنیا میں دیکھے ہیں بہت

سب پہ سبقت لے گئی ہے بے حیائی آپ کی

Sunday, November 15, 2009

سنی قادیانی مناظرہ

suni qadiyani munazar

ایصال ثواب سنت ہے

asal e sawab

تحریک آٓزادی میں علماء و مشائخ کا کردار

Azadi Main Ulma Ka Role

احادیث شفاعت

Ahadees Shifat

ماں کے پیٹ میں کیا ہے

Maan Ky Paet Main Kia Hey

زمین ساکن ہے

Zameen Sakan Hey

گیارویں کیا ہے

11 wen kia hey

حق آن لائن کے وزٹرز