یہ تہوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے گستاخ، ایک ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے
اہم انکشاف: بسنت کو صرف کھیل اور آمد موسم بہار کی نوید قرار دینے والوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ آزادی سے پہلے تک بسنت کو ہندوانہ تہوار تصور کیا جاتا تھا۔ شہر لاہور میں بسنت کو بطور تہوار منانے کا آغاز تقریبا اڑھای سو سال پہلے 1747ء میں ایک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ہندو "حقیقت راے" کی سمادھی ہندووں کی ہڈیاں دفن کرنے کی جگہ پر ہندوون کے پیلے رنگ کے کپڑے پہن کر حاضری دینے سے ہوا۔ چنانچہ ایک مسلمان مورخ سید عبداللطیف اور ایک ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کا ایک ہندو نوجوان حقیقت راے اس وقت کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتا تھا۔ اس کا مسلمان لڑکوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ مشتعل ہو کر اس ہندو نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔اس گستاخی پر گرفتار ہوا اور عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزاے موت سنایی۔ غیر مسلموں نے سزا ختم کرانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوے۔ اس وقت کے پنجاب کے غیرت مند مسلمان گورنر نواب بہادر "یا بقول ڈاکٹر بی ایس نجار" نواب زکریا نے کفار کا مطالبہ رد کرتے ہوے اس گستاخ ہندو کی سزاے موت کی توثیق کر دی۔ پہلے اس کو کوڑے مارے گیے، پھر سر قلم کر دیا گیا۔ ہندووں کے نزدیک حقیقت راے نے ہندو دھرم اور اپنے اوتاروں کے لیے قربانی دی تھی، انہوں نے اسے اپنا ہیرو قرار دیا اور اس کی یاد منانے کے لیے رنگ بکھیرا، پتنگ بازی کی، اس تہوار کا نام بسنت رکھا گیا۔ پھر ایک ہندو سرمایا دار کالورام نے اس کی یاد قایم رکھنے کے لیے اس کی سمادھی پر مندر تعمیر کرایا اور اس پر بسنت میلے کا آغاز کر دیا۔ شہر لاہور کی مشرقی جانب کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) میں اب بھی قبرستان کے ساتھ اس کی یادگار موجود ہے۔
(بحوالہ "تاریخ لاہور" صفحہ ۳۲۴ از سیر عبداللطیف و بحوالہ "پنجاب آخری مغل دور میں" صفحہ۲۷۹ از ہندو مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار)
گستاخ رسول ﷺ، ہندو کا دن بسنت منانے والے مسلمانو!
قیامت کے روز حضور ﷺ کو کیا منہ دکھاو گے؟ تمہیں حضور ﷺ کی شفاعت کیسے نصیب ہو گی؟
No comments:
Post a Comment