

Thursday, December 10, 2009
Tuesday, December 8, 2009
اللہ اللہ میرے نبی دی سب توں شاعر : عبد الستار نیازی
زبان : پنجابی
اللہ اللہ میرے نبی دی سب توں
اللہ اللہ میرے نبی دی سب توں شان نرالی اے
ساڈے عیب چھپاون والی سوہنے دی کملی کالی اے
لکھ رہوے کوئی کردا بھونویں دل تھیں اللہ اللہ
جے نہیں دل وچ عشق نبی دا سمجھو بھانڈا خالی اے
مینوں سدھ بدھ ہور نہ کوئی میں مکدی گل مکادیوں
جس تے ہو گیا سوہنا راضی اوہو کرماں والی اے
سدا درود وسلام دے تحفے رب بھیجے اوس سوہنے نوں
سب کجھ اوہدی خاطر بنیا اوہ کونین دا ولی اے
جے دل وچ عشق دا چانن ہووے فیر نیازی ویکھ ذرا
اوہ دسرا دربار نبی دا اوہ روضے دی جالی اے
ایتھے دل نہیں لگدا یار چلئیے شہر شاعر : عبد الستار نیازی
زبان : پنجابی
ایتھے دل نہیں لگدا یار چلئیے شہر
ایتھے دل نہیں لگدا یار چلئیے شہر مدینے نوں
کرئیے روضے دا دیدار چلئیے شہر مدینے نوں
سوہنے سوہنے کپڑے پا کے مانگ سکا کے سرمہ پا کے
نالے کر کے ہار سنگھار چلئیے شہر مدینے نوں
سبز گنبد مینار جا تکیے کھجیاں دے گلزار جے تکیے
تکیے طیبہ دے بازار چلئیے شہر مدینے نوں
گل وچ عشق دی مالا پا کے دل وچ یار دا نقش جما کے
سارے ہو جاؤ تیار چلئیے شہر مدینے نوں
طیبہ دیاں تے وکھریاں شاناں رہندیاں سانوں ہر دم تاہنگاں
آوے قسمت والا وار چلئیے شہر مدینے نوں
اے خاصہ خاصان رسل وقت از الطاف حسین حالی
اے خاصہ ء خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پر دیس میں وہ آج غریب الغربا ء ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے
جس دین نے دل آکے تھے غیروں کے ملائے
اس دین میں خود بھائ سے اب بھائ جدا ہے
ہے دین ترا اب بھی وہی چشمہ ء صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
Monday, December 7, 2009
Sunday, December 6, 2009
یکم محرم الحرام کا وظیفہ
786
قفل مدینہ
92
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت بانئ دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو البلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ اپنی تصنیف لطیف فیضان سنت کے باب فیضان بسم اللہ صفحہ 136 پر تحریر فرماتے ہیں !
یکم محرم الحرام کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 130 بار لکھ کر ( یالکھوا کر ) جوکوئی اپنے پاس رکھے (یا پلاسٹک کوٹنگ کروا کر کپڑے ،ریگزین یا چمڑے میں سلوا کر پہن لے ، (دھات کی ڈبیہ میں کسی قسم کا تعویذ نہ پہنیں )
ان شاء اللہ عزوجل عمر بھر اس کو یا اس کے گھر میں کسی کو کوئی بُرائی نہ پہنچے
( شمس العارفین ص 74)٫
امام احمد رضا اور ترجمہ قرآن از مولانا صدرالوریٰ قادری
قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا وہ معجزہ کلام ہے جو ساری کائنات کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے ۔ اس کا فیضان کسی خاص مکان یا کسی محدود زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ رہتی دنیا تک عالم کی رشدوہدایت کا منبع اور متلاشیان راہ حق کے لئے مشعل راہ ہے اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا: ’’ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ (قرآن ہمیں نے نازل کیا اور ہم ہی اسی کے محافظ ہیں )اور سارے عالم کو اس میں تدبر اور غوروفکر کا حکم دیا گیا ارشاد ربا نی ہے : ’’ کتٰب انزلنٰہ الیک مبارکا لیدبروا آیٰتہ ولیتذکر اولو الالباب‘‘ یہ کتاب کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں ۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔: ’’افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا‘‘ تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں یا بعض دلوں پرانکے قفل لگے ہیں ۔ مگر چونکہ قرآن مجید خالص عربی زبان میں نازل ہوا ، اور اس کے معانی ومفاہیم اتنے زیادہ ہیں جن کا احاطہ عام انسانوں کے بس سے باہر ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ’’لوشئت ان اوقر سبعین بعیرا من تفسیر ام القرآن لفعلت‘‘ (الاتقان جلد ! ۲ ص ! ۱۸۶)اگر میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر ستر اونٹ کے بوجھ برابر کرنا چا ہوں تو کر سکتا ہوں ۔
یہ تو ایک چھوٹی سی سورت کا حال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بارگاہ رسالت سے فیض یافتہ راسخ فی العلم صحابی اس کی تفسیر میں آجائیں تو ستر اونٹ کا بوجھ ہوجا ئے تو بڑ ی سورتوں کا کیا حال ہو گا ، اسی قرآن کریم کا ارشاد ہے :’’لوکان البحر مداداً لکلمٰت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمٰت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا‘‘(سورۂ کہف آیت !۱۰۹)اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لئے سیاہی ہوتوضرورختم ہوجائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگر چہ ہم ویسا ہی اس کی مدد کو لے آئیں ۔
اسی بنا پر عجم ہی نہیں بلکہ خود عربوں کے لئے بھی اس کی تفسیروتاویل کی ضرورت پڑ ی جو اہل لسان تھے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا ، اور عربی زبان میں سینکڑ وں کتب تفسیر وجود میں آئیں ، اور بلاد عجم بالخصوص برصغیر میں عربی زبان وادب کی بنسبت اردو داں افراد کی تعداد زیادہ تھی اس لئے اردو زبان میں بھی اس مقدس کتاب کے ترجمے وتفسیر کی ضرورت محسوس ہوئی ، اور کسی کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا کام کس قدر مشکل واہم ہے ، جس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کو فن ترجمہ وانشاء پردازی سے کچھ شغف ہو، اور وہ بھی کسی عام کلام کا ترجمہ نہیں ، جس میں اس قدر علمی تبحر ، وسعت مطالعہ، دقت نظر، بلوغ فکر اور حزم واحتیاط درکار ہے کہ خالص اپنی رائے پر اعتماد کر کے اس کا کوئی معنیٰ متعین نہیں کیا جا سکتا گوکہ وہ معنی صحیح ہو، نبی ا کرم ا ارشاد فرماتے ہیں : ’’من قال فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطأ‘‘ (رواہ الترمذی وابو داؤد)جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا ، صحیح کہا پھر بھی خطا کیا۔
اردو زبان میں بہت سارے ترجمے کئے گئے جن میں شاہ رفیع الدین، مولانا شاہ عبد القادر کے ترجمے سب سے پہلے معرض وجود میں آئے ان کے بعد ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا ترجمۂ قرآن شائع ہوا، لیکن انہوں نے جابجا ترجمہ میں محاورات کو دخیل کر کے قرآن کے معانی ومفاہیم کو گم کر دیا اور اکثر مقامات پر اپنے نیچری خیالات کے اثبات کی بھی کوشش کی۔
ان پرآشوب حالات میں قوم مسلم کو ایک صحیح اور سلیس اردو ترجمے کی ضرورت تھی جسے مجدداعظم اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ نے احسن طریقے پر انجام دیا ، جو کنزالایمان کے نام سے پورے عالم اسلام میں جانا اور پہچانا جاتا ہے ، جس میں تعظیم حرمات الٰہیہ اور تحفظ ناموس رسالت، اور حفظ عقائد اہل سنت کی بھرپور رعایت وپاسداری کی گئی ہے ، یہ ترجمہ کس طرح وجود میں آیا اس کی روداد بیان کرتے ہوئے مولانا مفتی بدرالدین علیہ الرحمۃ والرضوان رقمطراز ہیں : ۔’’صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کے صحیح ترجمے کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلیٰحضرت سے ترجمہ کر دینے کی گذارش کی ، آپ نے وعدہ فرمالیا مگر دوسرے مشاغل دیرینہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی، جب صدرالشریعہ کی جانب سے اصرار بڑ ھا تواعلیٰحضرت نے فرمایا: چونکہ ترجمہ کے لئے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات میں سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ، چنانچہ حضرت صدرالشریعہ ایک دن کاغذ، قلم اور دوات لیکراعلیٰحضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا، ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰحضرت زبانی طور پر آیات کریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے اور صدرالشریعہ اس کو لکھتے رہتے لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب تفسیر ولغت کو ملاحظہ فرماتے بعدہ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہ ، برجستہ ترجمہ زبانی طور اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوت حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانی سے پڑ ھتا جاتا ہے ، پھر جب صدرالشریعہ اور دیگر علماء حاضرین اعلیٰحضرت کے ترجمے کا کتب تفاسیر سے تقابل کر تے تویہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰحضرت کا یہ برجستہ فی البدیہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل مطابق ہے ، الغرض اسی قلیل وقت میں یہ ترجمہ کا کام ہوتا رہا، پھر وہ مبارک ساعت بھی آ گئی کہ حضرت صدرالشریعہ نے اعلیٰحضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کرالیا اور آپ کی کوشش بلیغ کی بدولت دنیا ء سنیت کو کنزالایمان کی دولت عظمیٰ نصیب ہوئی ۔
(سوانح اعلیٰحضرت امام احمد رضاص!۳۷۴، ۳۷۵)
اعلیٰحضرت قدس سرہ کے ترجمے میں جہاں بھرپور سلاست وروانی اور ادبیت وجودت تعبیر پائی جا تی ہے ، وہیں اس امر کا بھی پورا التزام ہے کہ ترجمہ لغت کے مطابق ہو اور الفاظ کے متعدد معانی میں ایسے معنیٰ کا انتخاب کیا جائے جو آیت کے سیاق وسباق کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہو اور جہا ں حضرات صحابہ کرام سے متعدد تفسیریں منقول ہیں وہاں اسی تفسیر کا انتخاب کیا جو حضرات خلفاء راشدین اور افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الراشدین سیدنا عبداللہ ابن مسعود اور ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ ابن عباس اور اقرأالصحابہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور یہ وہ جلیل القدر صحابہ ہیں جو تمام صحابۂ کرام میں تفسیر قرآن میں معروف وممتاز تھے ، مفسر قرآن حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :’’اشتہر بالتفسیر من الصحابۃ عشرۃالخلفاء الاربعۃ وابن مسعود وابن عباس وابی ابن کعب وزید بن ثابت وابوموسیٰ الاشعری وعبداللہ ابن زبیر‘‘ دس صحابۂ کرام تفسیر میں مشہور ہوئے چار خلفاء اورعبداللہ ابن مسعود اورعبد اللہ ابن عباس اورابی بن کعب اور زید بن ثابت انصاری اور ابو موسیٰ اشعری اور عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اسی طرح جہاں لفظی اور لغوی ترجمہ سے شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں وہاں اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ایسا ترجمہ کیا جس سے وہ تمام شکوک وشبہات دور ہوجا تے ہیں ، اور علوم بلاغت کی بھی پوری رعایت کی ہے ، جب کہ دیگر مترجمین کے یہاں اس کی کوئی رعایت نہیں ہے ، اثبات مدعیٰ کے طور پراس کے کچھ شواہد نذر قارئین کئے جاتے ہیں
پہلا شاہد:ذلک الکتٰب لاریب فیہ اعلیٰحضرت اما م احمد رضا خاں قدس سرہ نے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے ’’وہ بلندرتبہ کتاب (قرآن)کوئی شک کی جگہ نہیں ۔
ہر اہل فہم پر یہ آیت روشن ہے کہ لفظ ۔’ذلک ‘اشارہ بعیدکے لئے آتا ہے اور کبھی اس کے ذریعہ مسند الیہ کی تعظیم مقصود ہوتی ہے اس طور سے کہ مسند الیہ عظیم المرتبت اور رفیع الدرجات ہوتا کہ عام لوگوں کے مرتبہ سے اس کا مرتبہ اتنا بلند اور دور ہوتا ہے کہ اس تک سب کی رسائی نہیں ہوپاتی ، تو بعد مرتبت ، رفعت منزلت کو بعد مسافت کی منزل میں اتار کر اسم اشارہ بعید سے اس کی تعبیر کی جاتی ہے ، اور کتاب اللہ کی شان رفعت ورفعت شان ایسی ہے کہ اس کے جیسا کلام لانا انسان ودیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہے قرآن کریم ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے :’’قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ہٰذا القرآن لایاتون بمثلہ ولوکا ن بعضہم لبعض ظہیرا‘‘(اسراء آیت !۸۸)تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بار پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کے مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے اگر چہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو ۔
علامہ سعدالدین تفتا زانی رحمۃاللہ علیہ ’’ذلک‘‘کے اس معنی کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’او تعظیمہ بالبعد نحو الٓم ذلک الکتٰب لاریب فیہ تنز یاء العد درجۃ ورفعۃ محلہ منزلۃ بعد المسافۃ‘‘ (مختصر المعانی ص!۷۷)یا بعد کے ذریعہ اس کی تعظیم مقصود ہوتی ہے جیسے ’’الم۔ ذلک الکتٰب لاریب فیہ ‘‘اس طور سے کہ مسند الیہ کے مرتبہ کی دوری اور مقام کی بلندی بعد مسافت کی منزل میں اتار لی گئی ہے ۔ (مختصر المعانی ص!۷۷)
اسی طرح یہ بھی ایک نا قا بل انکار حقیقت ہے دوا عی واسباب کی بنیاد پر کلام کبھی مقتضی ظاہرکے خلا ف پیش کیا جاتا ہے ، اس وقت غیر سائل کو سائل کی منزل میں اور غیر مفکر کو مفکر کی منزل میں کر کے اس کے ساتھ وہی انداز تخاطب اختیار کیا جا تا ہے جو ایک سائل اور مفکر کے ساتھ اندازاپنا یا جاتا ہے ، یہ اس وقت ہوتا ہے جب حکم آیت واضح ہو کہ ہر ذی فہم پر اس کی حقانیت عیاں ہو اور اس پر ایسے دلائل قائم ہوں کہ انکار کرنے والا ان دلائل میں ذرا بھی غور کرے تو اس کے انکار سے باز آجا ئے اور اس کی مثال قرآن حکیم ہے ، اس کے کلام اللہ ہونے میں جو لوگ شک کرتے ہیں وہ اگر اس کے دلائل اعجاز اور وجوہ بلاغت میں ذرا بھی غور کریں تو وہ شک نہ کریں گے اور اس کا کلام اللہ ہونا ایسا واضح ہے کہ یہ کوئی شک کا محل ہے ہی نہیں علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ویجعل المنکر کفیر المنکر اذاکان معہ مأ ان تاملہ ارتدع عن انکارہ نحو لاریب فیہ ظاہر ہٰذا الکلام انہ مثل الجعل منکر الحکم کفیرہ وترک التاکید لذالک وبیانہ ان معنی لاریب فیہ لیس القرآن بمظنۃ للریب ولاینبغی ان یرتاب فیہ وہٰذا الحکم مما ینکرہ کثیرمن المخاطبین لکن نزل انکارہم منزلۃ عدمہ لما معہم من الدلائل الدلالۃعلی انہ لیس مما ینبغی ان یرتاب فیہ‘‘ (مختصر المعانی ص!۵۰) اور منکر کو غیر منکر کی طرح کر دیا جاتا ہے جب کہ اس کے ساتھ ایسے دلائل ہوں کہ اگر انکار کرنے والا ان میں غوروفکر کرے تو انکار سے باز آجائے جیسے ’’لاریب فیہ‘‘اس کلام کا ظاہر ہے کہ یہ منکر کو غیر منکر کی طرح کرنے کی مثال ہے اسی وجہ سے تاکید یہاں ترک کر دی گئی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ’’لاریب فیہ ‘‘کا معنی یہ ہے کہ قرآن شک کی جگہ نہیں ہے اس میں شک کرنا نا مناسب ہے اور یہ حکم ایسا ہے جس کا انکار بہت سے مخاطب کرتے ہیں لیکن ان کے انکار کو عدم انکار کی منزل میں اتار لیا گیاکیونکہ ان کے ساتھ ایسے دلائل ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس میں شک کرنا بالکل ہی نامناسب ہے ۔
اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ان دونوں خوبیوں کی رعایت کرتے ہوئے یہ ترجمہ فرمایا کہ ’’وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن)کو ئی شک کی جگہ نہیں ہے ‘ ‘ اب دیکھیں کیا دوسرے تراجم میں بھی ان خوبیوں کی رعایت کی گئی ہے ، اس پر ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ ناظرین اس کا فیصلہ خود فرما لیں ۔
مولوی محمود الحسن دیوبندی ان الفاظ میں ترجمہ کرتے ہیں ۔
’’اس کتاب میں کچھ شک نہیں ‘‘
مولوی اشرف علی تھانوی ترجمہ کرتے ہیں ’’یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ‘‘
ان مترجمین نے لفظ ’’ذلک ‘‘کا ترجمہ لفظ ’’اس ‘‘یا ’’ان‘‘سے کیا ہے جب کہ یہاں اس معنی میں ذلک نہیں ہے ، اسی طرح دوسری خوبی کی بھی کوئی رعایت ان ترجموں میں نہیں ہے ۔
دوسرا شاہد:یا ایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون (پ!۱رکوع۳ سورہ بقرہ ) اس آیت کا ترجمہ دیوبندی مکتب فکر کے پیشوامولوی محمود الحسن دیوبندی نے ان الفاظ میں کیا ’’اے لوگو !بندگی کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ‘‘
اس ترجمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب مترجم صاحب نے لفظ’’لعل‘‘کو ’’لکی ‘‘کے معنی میں لیا ہے ، اور ان کے علاوہ دیگر مترجمین نے بھی یہی ترجمہ کیا ، جب کہ مفسر قرآن علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں اس کی مثال لغت میں ثابت نہیں کہ ’’لعل‘‘ ’’لکی‘‘کے معنی میں آتا ہو چنانچہ رقمطراز ہیں :’’وقیل تعلیل للخلق اے خلقکم لکی تتقواکما قال وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ، وہوضعیف اذ لم یثبت فی اللغۃ مثلہ‘‘اور ایک قول یہ ہے کہ یہ علت خلق کا بیان ہے ، یعنی تمہیں اس لئے پیدا کیا کہ پرہیزگاربنو جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ، اور میں نے جن وانس کو اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ عبادت کریں ، اور یہ قول ضعیف ہے کیونکہ اس کی مثال لغت میں ثابت نہیں ۔
اب اس کی راجح تفسیر کیا ہو گی اس تعلق سے علامہ قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :’’حال من الضمیر فی اعبدوا کأنہ قال اعبدوا ربکم راجین ان تخزطوا فی سلک المتقین الفائزین الہدی والفلاح المستوجین لجوار اللّٰہ تعالیٰ ‘‘ (تفسیر بیضاوی ص!۴۱) ’’اعبدوا‘‘ کی ضمیر سے حال ہے گویا کہ فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو یہ امید کرتے ہوئے کہ ان پرہیز گاروں کی لڑ ی میں داخل ہوجاؤ جوہدایت وفلا ح پر فائز ہیں اللہ تعالیٰ کی پناہ کے مستحق ہیں ۔
اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اسی راجح تفسیر کو اختیارکرتے ہوئے ترجمہ فرمایا ’’اے لوگو !اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلو ں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔‘‘اس ترجمہ سے خوب عیاں ہے کہ اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ’’لعل‘‘کو ’’لکی ‘ ‘ کے معنی میں نہیں لیا ہے ، بلکہ اسے ’’اعبدوا ‘‘ کی ضمیر سے حال مانا ہے ۔
عصمت انبیاء اور کنزالایمان :
بعض مترجمین نے کچھ مقامات میں قرآن حکیم کے ظاہری معنی کو لے کر عصمت انبیاء علیہم السلام پرحملے کی ناکام کوشش کی تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے وہاں پر ایسا ترجمہ فرمایا جس سے ان مترجمین کے ترجمے سے پیدا ہونے والے شبہات خود بخود رفع ہو جاتے ہیں ، ان شبہات کو دور کرنے کے لئے الگ سے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ، ذیل میں اس کی بھی ایک نظیر پیش کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’و وجدک ضالاًّفہدیٰ۔‘‘
مولوی محمود الحسن دیو بندی نے اس کا ترجمہ کیا ’’اور پایا تجھ کو راہ بھٹکتا ہوا پھر راہ سمجھائی ۔‘‘
مولوی اشرف علی تھانوی نے ان الفاظ میں ترجمہ کیا ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت سے )بے خبر پایا سو آپ کو (شریعت کا راستہ )دکھلایا ۔‘‘
مودودی صاحب نے یہ ترجمہ کیا ’’اور تمہیں نا واقف راہ پایا اور پھر ہدایت دی ۔
ناظرین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان ترجموں سے عصمت نبی ا پر بھر پور آنچ آ رہی ہے ، جسے دفع کرنا بے حد ضروری تھا تا کہ اسلام دشمن عناصر عصمت انبیاء علیہم السلام پر حملے کی جرأت نہ کر سکیں ، اس لئے اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ’’ضال‘‘ کا ظاہری معنی یہاں پر نہیں لیا بلکہ وہ معنی اختیار کیا جس سے نبی ا کرم ا کی عظمت کا بھر پورظہور ہوتا ہے ، اور ساتھ ہی عصمت کے تعلق سے کوئی شبہ بھی پیدا نہیں ہوتا اب اعلیٰحضرت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ، وہ رقمطراز ہیں ’’اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی ‘‘
یعنی اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ’’ضال‘‘کا ترجمہ خود رفتہ یعنی محب سے کیا ہے ، اب یہاں غور کا مقام یہ ہے کہ کیا اعلیٰحضرت سے پہلے بھی کسی نے اس آیت میں ’’ضال ‘‘کا ترجمہ محب کے لفظ سے کیا ہے ؟یا دیگر مقامات سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے ؟یا ائمہ لغت میں کسی نے ’’ضال‘‘ کا معنی محب لکھا ہے ؟یہ وہ سب سوالات ہیں جو کسی کے بھی ذہن میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔ لہٰذا ان کا جواب بھی دینا ضروری ہے رہا پہلا سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ اعلیٰحضرت سے پہلے بھی ’’ضال ‘‘کی تفسیر محب کے لفظ سے کی گئی ہے شفا اور اس کی شرح نسیم الریاض میں ہے : ’’وقال ابن عطاء فی تفسیر الآیۃ و وجدک ضالا ای محبا لمعرفتی فہداک بانوار ہدایۃ وعنایۃ ولما کان ہذا خلاف المشہور فی اللغۃالبینۃبقولہ(والضال)ور د بمعنی المحب کما قال اللّٰہ تعالیٰ انک لفی ضلالک القدیم ای محبتک القدیم وہذامنقول عن قتادۃ وسفیان ومثلہ ای مثل کون الضلال بمعنی المحبۃ فی ہذہ الآیۃ انا لنراہا فی ضلال مبین ای محبۃ بینۃ‘‘ (ج!۴ص!۴۸، ۴۹)ابن عطا نے آیت کی تفسیر میں فرمایا اور تمہیں اپنی معرفت کا محب پایا تو تمہیں اپنی ہدایت وعنایت کے انوار سے راہ دی ، اور جب کہ یہ معنی لغت کے معنی مشہور کے خلاف ہے تو اسے اپنے اس قول سے بیان کیا اور ’’ضال‘‘ محب کے معنی میں آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور حکایت فرمایا بیشک آپ اپنی اسی پرانی خودرفتگی میں ہیں ، یعنی اپنی محبت میں ، اوریہ تفسیر قتادہ اور سفیان رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور ا سکی یعنی اس کی مثال کہ اس آیت میں ضلال، محبت کے معنی میں ہے یہ ارشاد ہے ’’ہم تو اسے خودرفتگی یعنی کھلی ہوئی محبت میں پاتے ہیں ۔
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے بہت پہلے یعنی دور تابعین میں حضرت ابن عطا حضرت قتادہ حضرت سفیان رضی اللہ عنہم نے اس مقام میں ’’ضال‘‘کا معنی’محبت ‘متعین کیا ہے ، اور اسی سے دوسرے سوال کا بھی جواب ظاہر ہے اور تیسرے سوال کے تعلق سے عرض یہ ہے کہ ائمہ لغت میں راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ’’انک لفی ضلالک القدیم‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’اشارۃ الی شغفہ بیوسف الیہ وکذالک قد شغفہا حبا انا لنراہا فی ضلال مبین‘‘ (مفردات امام راغب ص!۳۰۰)یوسف علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام کی وارافتگی کی طرف اشارہ ہے ، اسی طرح اس آیت میں جس کا معنی ہے بیشک ان کی محبت اس کے دل میں پیر گئی ہم تو اسے صریح خود رفتہ پاتے ہیں ۔
امام راغب کی شان یہ ہے کہ ارباب لغت جس قدر کسی مفرد لفظ کے معانی بیان کرتے ہیں ان کے استیعاب کے ساتھ سیاق وسباق کی روشنی میں ان معانی کی تعداد میں اضافہ فرماتے ہیں اور وہ معانی بیان کرتے ہیں جو اہل لغت کے وہاں نہیں ملتے اور آپ کی کتاب ’’المفردات‘‘اس بارے میں کتب معتمدہ سے ہے ، علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’وطریق التوصل الی فہمہ النظر الی مفردا ت الالفاظ من لغۃ العرب ومدلولاتہا واستعمالہا بحسب السیاق وہذایتمنی بہ الراغب کثیرا فی کتاب المفردات فیذکر قیدا زائدا علی اہل اللغۃ فی تفسیر مدلول اللفظ لانہ اقتضاہ السیاق‘‘(الاتقان ج!۲ص ! ۱۸۳)اور اس کی سمجھ تک پہونچنے کا طریقہ یہ ہے کہ لغت عرب سے مفرد الفاظ اور ان کے مدلولات اور سیاق کلام کے اعتبار سے ان کے استعمال میں غور کیا جائے ۔امام راغب ’’کتاب المفردات‘‘میں اس پر بڑ ی توجہ دیتے ہیں ، کیونکہ وہ مدلول لفظ کی تفسیر میں اہل لغت سے بڑ ھ کر قید زائد کو ذکر کرتے ہیں ۔اس وجہ سے کہ سیاق کلام اس کا مقتضی ہوتا ہے ۔
علم غیب اور کنز الایمان :قرآن حکیم میں جہاں اس مضمون کی آیتیں ہیں جن سے بعطائے الٰہی نبی ا کرم ا کے لئے علم غیب کا اثبات ہوتا ہے جیسے :’’فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول‘‘ (سورہ جن آیت !۲۶)’’ماکان اللّٰہ لیطلعکم علی الغیب و لکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشائ‘‘ (سورہ آل عمران آیت !۱۷۹) اور ’’ما ہو علی الغیب بضنین‘‘ (سورہ تکویر آیت !۸۱)اور ’’وعلمک ما لم تکن تعلم‘‘وغیرہ وہیں ایسی بھی آیتیں ہیں جن سے بظاہر علم غیب کی نفی ہوتی ہے ، جیسے ’’لا اعلم الغیب‘‘وغیرہ ان آیتوں میں بظاہر تعارض بھی معلوم ہوتا ہے اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے ان آیتوں کا ایسا ترجمہ کیا ہے جس سے تعارض بھی ختم ہو جا تا ہے اورنبی ا کرم ا کی غیب دانی پر کوئی حرف بھی نہیں آتا ، ذیل میں اس کی ایک مثال ذکر کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’قل لا اقول لکم عندی خزائن اللہ ولا اعلم الغیب ولا اقول لکم انی ملک ان اتبع الا مایوحی الی‘‘ (سورہ انعام آیت !۵۰ )اعلیٰحضرت قدس سرہ نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں فرمایا ’’تم فرمادو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یوں کہو ں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو اسی کا تابع ہو جو وحی آتی ہے (کنز الایمان )
اس ترجمہ میں مسئلہ غیب کو واضح فرمادیا گیا کہ جن آیتوں میں نبی ا کرم ا سے علم غیب کی نفی ہے وہاں علم ذاتی مراد ہے علم غیب عطائی کی نفی نہیں ہے کیونکہ آیات قرآنیہ کے علاوہ اس بارے میں اتنی کثرت سے حدیثیں وارد ہیں جو معنی کے اعتبار سے حد تواتر کو پہونچی ہوئی ہیں جن سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعطاء الٰہی نبی ا کرم ا کو جمیع ماکان ومایکون کا علم حاصل تھا محدث مکی حضرت ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں : ’’ومن ذالک ما اطلع علیہ من الغیوب ای الامور المغیبۃ فی الحال (مایکون)ای سیکون فی الاستقبال والاحادیث فی ہذا الباب بحر لایدرک قعرہ ولاینزف غمرہ وہذہ المعجزۃ من جملۃ معجزاتہ المعلومۃ علی القطع الواصل الینا خبرہا علی التواتر لکثرۃ رواتہاواتفاق معانیہا الدالّۃ علی الاطلاع علی الغیب‘‘ (نسیم الریاض ج!۳ص!۱۵۰)اورنبی ا کرم ا کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ اغیوب یعنی وہ امور جو فی الحال ہماری نگا ہوں سے اوجھل ہیں اور وہ جو مستقبل میں ہوں گے سب پر مطلع ہیں اور اس باب میں احادیث وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی اس کی حدوں کا احاطہ کیا جا سکتا اور یہ معجزہ نبی کریم ا کے ان معجزات میں سے ہے جو ہمیں قطعی طور پر معلوم ہیں جن کی خبر بطریق تواتر ہم تک پہونچی کیونکہ ان کے راوی بہت ہیں اور ان کے وہ معانی جو نبی ا کرم ا کی غیب دانی پر دلالت کرتے ہیں وہ باہم متفق ہیں ۔
رہی وہ آیتیں جن سے علم غیب کی نفی ہوتی ہے تو ان کا جواب یہ ہے کہ ان آیتوں میں علم غیب ذاتی کی نفی ہے ، عطائی کی نفی نہیں ہے علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :’’وہذالاینافی الآیات الدالّۃ علی انہ لایعلم الغیب الا اللّٰہ وقولہ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیرواسطۃواما اطلاعہ علیہ باعلام اللّٰہ وامر متحقق بقولہ تعالی فلایظہر علی غیبہ احدا الامن ارتضی من رسول‘‘ (نسیم الریاض ج!۳ص!۱۵۰)اور یہ ان آیتوں کے منافی نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ غیب اللہ ہی جانتا ہے اور نبی ا کرم اکا یہ فرمانا کہ اگر میں غیب جانتا تو میں بھلائی جمع کر لیتا کیونکہ یہاں اس علم کی نفی ہے جو بلاواسطہ حاصل ہو ، رہا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی ا کرم ا کا غیب مطلع ہونا تو یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا ہے سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔
اعلیٰحضرت امام احمد رضاخاں قدس سرہ نے اس تطبیق کی یہ رعایت پیش کرتے ہوئے ترجمہ فرمایا کہ آیتوں کا درمیانی تعارض بھی دور ہوجائے ۔
’’کنزالایمان‘‘ پر تنقیدکا ایک علمی جائزہ ۔:
دیوبندی مکتب فکر کے بعض نا م نہادمولویوں نے ’’کنزالایمان‘‘ پر بے جا اعتراض کر کے اسے اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا اور اپنی دسیسہ کاریوں کی بنیاد پر بھولی بھالی عوام کو فریب دے کر اپنے دام تزویر میں لینے کی ناپاک کوششیں کی، اور اس میں غلطیاں نکالنے کیلئے پوری دیوبندی برادری دل وجان سے لگ گئی ، اورکنزالایمان پر حملہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، اور اس سلسلے میں ان کے کئی جھوٹ کے پلندے منظر عام پر آئے ، ان کی تمام فریب کاریوں کاپردہ اگر چاک کیاجائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجا ئے مگر تنگئی وقت اور خوف طوالت دامن گیر ہے جس کی وجہ ان کی صرف ایک فریب کاری بے نقاب کر کے حقیقت واشگاف کی جا رہی ہے ۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے ’’الذین یومنون بالغیب ‘‘اعلیٰحضرت قدس سرہ نے اس کا ترجمہ کیا ’’جو بے دیکھے ایمان لائیں ‘‘
اس ترجمہ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک دیوبندی مولوی ان الفاظ میں ہذیان بکتے ہیں ۔
الفاظ قرآنی کو دیکھتے ہوئے یہ ترجمہ غلط ہے کیونکہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’بے دیکھے ‘‘ فاعل کی صفت ہے حالانکہ بے دیکھے فاعل کی صفت نہیں ہے بلکہ یہ تو مومن کی ہے یعنی بے دیکھی چیز پر ایمان لا نا ضروری ہے لیکن مولوی احمد رضا خاں نے بے دیکھے کو فاعل کی صفت بنا ڈالا جب کہ یہ ان چیزوں کی صفت تھی جن پر ایمان لانا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مولوی احمد رضا خاں کے علاوہ تمام اردو مترجمین نے اس کی رعایت کی ہے (رضاخانی ترجمہ وتفسیر پر ایک نظر از :جمیل احمد نذیری دیوبندی )یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دیگر مترجمین نے اس آیت کا کیا ترجمہ کیا ہے البتہ آنجناب نے یہ جو گل کھلایا کہ یہ ترجمہ غلط ہے ، یہ ضرور تحقیق طلب ہے اس کے بعد ہی اس کا صحیح علم ہو گا کہ جناب جی نے کس قد ر فریب کاری کی ہے اور ان کی فہم ناقص کا نقص بھی کتنا حیرت انگیز ہے کہ اس ترجمہ سے کیسے سمجھ لیا کہ اعلیٰحضرت قدس سرہ نے اسے فاعل کی صفت بنائی ہے ، حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ ’’بے دیکھے ‘‘ فاعل کی صفت نہیں بنائی گئی ہے بلکہ اسے ’’یومنون‘‘ کی ضمیر سے حال بنا کر یہ ترجمہ کیا گیا ہے ، اور یہاں ’’بالغیب‘‘میں جس طرح یہ احتمال ہے کہ ایمان کا صلہ ہو کر مفعول بہ کی جگہ میں واقع ہو اسی طرح سے یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ’’یومنون ‘‘کی ضمیر سے حال ہو ، اور اسی اعتبار سے اعلیٰحضرت قدس سرہ نے ترجمہ کیا ’’جو بے دیکھے ایمان لائیں ‘‘ اور یہ معنی تفسیر کی تقریبا سبھی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ تفسیر ر وح البیان میں ہے : ’’وان جعلت الغیب مصدرا علی حالہ کالغیبۃفالباء متعلقۃ بمحذوف وقع حالا من الفاعل ای یؤمنون متلبسین بالغیبۃ اما عن المؤمن بہ ای غائبین عن النبی ا غیر مشاہدین لما فیہ من شواہد النبوۃ ویدل علیہ انہ قال حارث بن نفیر لعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نحن نحتسب لکم یا اصحاب محمد ماسبقتمونا بہ من روئۃ محمدا وصحبتہ فقال عبد اللّٰہ ونحن نحتسب لکم ایمانکم بہ ولم تروہ وان افضل الایمان ایمان بالغیب ثم قرا عبد اللّٰہ الذین یؤمنون بالغیب واما عن الناس ای غائبین عن المؤمنین لا کالمنافقین الذین واذا لقوا الذی آمنوا قالوا آمنا واذا خلو الی شیاطینہم قالو انا معکم‘‘(ج!۲ص!۳۲)اور اگر غیب کو غیب کی طرح علی حالہ مصدر بناؤ تو باء ایک محذوف سے متعلق ہو گی جو فاعل سے حال واقع ہو گا، یعنی وہ صفت غیبت کے ساتھ متصف ہوکر ایمان لاتے ہیں خواہ وہ مومن بہ یعنی نبی ا کرم ا ہیں اور اگر غائب ہوں آپ کے شواہدنبوت کو بغیر دیکھے ہوئے ایمان لائیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حارث بن نفیر نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا اے صحابۂ کرام کی جماعت ہم آپ کے لئے اس کا احتساب کرتے ہیں جس میں آپ لوگ ہم پر سبقت لے گئے یعنی نبی ا کرم ا کا دیدار کیا ، شرف صحابیت سے ہم کنار ہوئے تو عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم آپ لوگوں کے نبی ا کرم ا پر اس حال میں ایمان لانے کا احتساب کرتے ہیں کہ ان کا دیدار نہیں کیا اور افضل ایمان بے دیکھے ایمان لا نا ہے پھر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ’’الذین یؤمنون بالغیب‘‘کی تلاوت فرمائی ، یا وہ مسلمانوں سے غائب رہنے کی حالت میں ایمان لائیں نہ کہ ان منافقوں کی طرح کہ جب وہ ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب تنہائی میں اپنے شیاطین کے ساتھ ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔اور یہ معنی تفسیر کی حسب ذیل کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔
تفسیر ابی مسعود ج!۲ ص!۳۱، تفسیر ابن جریرج !۱ص!۱۳۳، تفسیر بیضاوی ص!۱۸، ۱۹، تفسیر مظہری ج!۱ص!۲۰ ، تفسیر کشاف ج!۱، تفسیر کبیر للرازی ج!۱ص!۲۷، تفسیر قرطبی ج!۱ص!۱۶۵، تفسیر خازن ج!۱ص!۲۵، تفسیر مدارک مع الاکلیل ج!۱ص!۴۰۔
بلکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلو ی رحمۃاللہ علیہ جن کی تحریر دیوبندیوں کے نزدیک حجت قطعیہ سے کم کی حیثیت نہیں رکھتی انھوں نے تفسیر عزیزی میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ قدمائے صحابہ مثلا حضرت عمر فاروق ، حضرت عبد اللہ ابن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس آیت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے چنانچہ وہ رقمطراز ہیں :وقدمائے صحابہ ایمان بالغیب را دریں آیت بر معنی دیگر حمل فرمودہ اند یعنی قدمائے صحابہ نے اس آیت میں ایمان بالغیب کو دوسرے معنی پر محمول کیا ہے ۔(تفسیر عزیزی ج!۱ص!۳۸، ۳۹)
پھر سید نا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ تفسیر بزبان فارسی بیان فرمائی جو اوپر روح البیان اور دیگر کتب تفسیر کے حوالے سے آ چکی ہے ۔اور حدیث کی مستند ومعتمد کتابوں کی روشنی میں درج بالا صحابہ کرام سے وہی تفسیر ذکر کی ، وہ عبارت چونکہ بہت طویل ہے اس لئے ہم نے صرف حوالے پر اکتفا کیا ، اور یہ وہ جلیل القدر صحابہ کرام ہیں جن کی تفسیر مقدم اور راجح ہوتی ہے ۔ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰحضرت قدس سرہ نے جو ترجمہ کیا ہے وہ کبار صحابہ سے منقول ہے اور راجح بھی ہے ، اور اس سے دیوبندیوں کی فریب کاری بے نقاب ہوکر حقیقت واشگاف ہو گئی ، اس طرح بد مذہبوں کی اوربھی فریب کاریاں ہیں جن پر اگر تفصیل سے گفتگو کی جائے تو ایک لمبی کتاب تیارہوجائے گی ہم نے یہاں بطور تنبیہ صرف ایک مثال پیش کی ہے ۔
الغرض اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی قدس سرہ نے کنزالایمان میں جوترجمہ کیا ہے وہ دیگر تراجم میں راجح اور مقدم ہے ادبی محاسن، کتب تفسیر سے مطابقت، عقائد حقہ کی حفاظت وصیانت، اللہ تعالیٰ کی تقدیس وتنزیہ، نبی ا کرم ا کی تعظیم واحترام، دشمنان اسلام کا رد، جس قدر کنزالایمان میں ہے دیگر ترجموں میں مفقود ہے ، ساتھ ہی سلاست وروانی ، فصاحت وبلاغت، ترکیب کی رعایت کامعیار جتنا بلند ہے وہ اہل لسان پر مخفی نہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ اعلیٰحضرت قدس سرہ کے علمی فیضان سے ایک وافر حصہ ہمیں عطا فرمائے ۔۔۔۔آمین
صدرالوریٰ قادری
خادم تدریس جامعہ اشرفیہ مبارکپور
عصمت عائشہ میں حکمت خداوندی
نام کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عصمت عائشہ میں حکمت خداوندی
مصنف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مناظر اہل سنت،علامہ عبد الستار ہمدانیؔ مصروفؔ
سبب تالیف
آج سے تقریبا ایک ماہ پہلے عالی جناب رفیق بھائی پوربندری کا بوٹسوانہ (افریقہ) سے فون آیا اور انہوں نے فون پر اثنائے گفتگو یہ بتایا کہ آج کل افریقہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کے تعلق سے کچھ زیادہ ہی نازیبا کلمات کہے جا رہے ہیں ، آپ کی پاکدامنی پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور آپ کی عصمت و عفت پر کلام کیا جاتا ہے۔جب کہ اپنے ہندوستان میں بھی ایسی باتیں سنی جاتی رہیں اور بر وقت اس کے کافی و شافی جوابات بھی علمائے اہل سنت کی جانب سے دئے جاتے رہے ۔ مگر جب بات سرحد کو عبور کر جائے تو معاملہ کچھ زیادہ ہی سنگین ہوجاتاہے ۔
منافقین زمانہ تو ہر لمحہ نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے منسوب شخصیات و اشیاء کی کچھ نہ کچھ تنقیص میں رہتے ہی ہیں ۔ انہیں موقع ملنا چاہیئے اور پھر بس زبان کھل جاتی ہے ، واقعات و حادثات کی حقیقت و اصلیت جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور نہ لوگوں کو جاننے دیتے ہیں ۔ واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ کے تعلق سے کیا تھا؟ اس کی حقیقت کیا تھی ؟ اگر کسی وہابی ، تبلیغی سے پوچھا جائے تو شاید ہی جواب ملے ، کیونکہ ان کو صرف گستاخی کی ہی حد تک معلومات ہیں، اور اسی کی وہ نشرو اشاعت کرتے ہیں۔
اس ضمن میں آیات ر بانی و احادیث نبوی و اقوال بزرگاں بے شمار ہیں جو اپنے اندر انتہائی جامعیت رکھتے ہیں اور ہر ذی عقل اس کو سمجھ سکتا ہے ۔
بہر حال ! اس تعلق سے جب مناظر اہل سنت ، ماہر رضویات، علامہ عبدالستار ہمدانی صاحب مد ظلہ العالی کو اطلاع ملی تو آپ بڑے تشویش مند اور متفکر تھے، چند ہی لمحوں کے بعد مجھ حقیر سے فرمایا کہ اگر اس موضوع پرمختصر سا ایک کتابچہ لکھ دیا جائے تو کیسا رہے گا تاکہ سادہ لوح عام مسلمان اس کو پڑھ کر اپنے ایمان و عمل کی حفاظت کر سکیں حضرت کے اس جواب پر میں بہت خوش ہوا اور اسی وقت حضرت نے لکھنا شروع کیا یہاں تک کہ کل چار گھنٹہ میں پورا رسالہ بنام ''عصمت عائشہ میں حکمت خداوندی '' زیور تالیف سے آراستہ ہو گیا، جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔
آپ اس کا مطالعہ فرمائیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے متعلق جو گمراہ کن غلط فہمیاں گمراہ گروں نے آپ تک پہنچائی ہیں ان سے یکلخت کنارہ کش ہوکر انصاف و دیانت سے ایمان کی بات کیجئے ۔
رسول پروردگار ذی شان عالی وقارنبی مختارصلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ، ہم سب مسلمانوں کی ماں کے تعلق سے اگر کوئی مسلمان تو در کنار غیر مسلم بھی ایسی باتیں کہہ کر نکل جائے اور ہم میں سے کسی کے سر پر جو تک رنگیں تو یہ یقینا ہماری ایمان کی کمزوری ہوگی ۔ جس معزز خاتون کو نبی مختار نے اپنی شریک حیات بنایا ہو ان کے تعلق سے ایک بے ایمان اور بدتمیز گستاخ ہی ایسی باتیں کہہ سکتا، سن سکتا ہے، اہل ایمان اسے کبھی برداشت نہیں کرے گا ۔
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی تعالی ہم سب کو ثابت قدم رکھے اور انبیاء اولیاء اہل بیت اطہار کی محبت میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔ نیز حضرت موصوف کی عمر میں برکت عطا فرمائے ۔ مرکز اہل سنت کو دن دونی رات چوگنی ترقیات سے ہمکنار فرمائے ۔ آمین
ارشد علی جیلانی '' جان ؔ'' جبل پوری
خادم: مرکز اہل سنت برکات رضا
پوربندر(گجرات)
٢١/رمضان المبارک ١٤٢٤ ھ
١٧/نومبر ٢٠٠٣ئ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دور حاضر کے وہابیہ ، تبلیغیہ اور دیگر فرق باطلہ کے لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کے تعلق سے سرکار دو عالم ؐ کے علم غیب پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور عوام الناس کو ورغلانے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے معاملہ میں اتنا سکوت کیوں فرمایا اور وحی کے منتظر کیوں تھے ؟ اس طرح کی لا یعنی باتوں سے عوام الناس کو حق سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بےچارے ، کم علم لوگ ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں اورنتیجۃًعلم غیب مصطفی کے انکار کرنے سے ایمان کی لازوال دولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور آخرت کے دردناک عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل مباحث کا آپ بغور مطالعہ فرمائیں اور خود ہی فیصلہ کریںکہ منافقین زمانہ اس واقعہ کے ضمن میں کیسی دھوکہ بازی سے کام لیتے ہیں اور گمراہی پھیلاتے ہیں۔
آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا علم غیب قرآن کی متعدد آیات اور احادیث کے بے شمار متون سے ثابت ہے۔ اس پر ایمان رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں جو عدل و انصاف اور جو اعتدال فرماتے اس کی نظیر دنیا کے کسی شخص میں نہیں ملتی ۔ یہاں تک کہ سفر میں جاتے وقت اگرکسی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے جانے کا ارادہ فرماتے تو عدل و انصاف کے تقاضے کے تحت قرعہ اندازی فرماتے اور جس زوجہ مطہرہ کے نام قرعہ نکلتا اسے سفر میں ہم رکابی کا شرف عطا فرماتے ۔
٥ ھ میں غزوہ بنی المصطلق میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا ۔ اور ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالا ۔ اور اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام نکلا ۔ غزوہ بنی المصطلق ٥ ھ سے پہلے آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ یعنی عورتوں کیلئے پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید پارہ ٢٢؎ سورہ احزاب میں آیت حجاب نازل ہو چکی تھی ۔ غزوہ بنی المصطلق کا واقعہ غزوہ خندق اور غزوہ بنی قریظہ سے قبل کا ہے ۔ غزوہ بنی المصطلق میں ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس ؐ کے ساتھ تشریف لے گئیں۔ ان کی سواری کا بندوبست ایک اونٹنی پر محمل یعنی کجاوے میں کیا گیا ۔ اس کجاوے کو پردہ کیلئے اچھی طرح محجوب کیا گیا ۔ تاکہ کسی غیر محرم کی نظر ام المؤمنین پر نہ پڑے۔ آپ کجاوے میں پردے کے کامل انتظام کے ساتھ بیٹھ جاتیں ۔ اور پھر اس کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا جاتا ۔ پڑاؤ اور منزل پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کجاوے کے اندر بیٹھی رہتی تھیں ۔ اور کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ سے اتار لیا جاتا تھا ۔ اب پورا واقعہ جس کو '' حدیث افک'' کے نام سے شہرت ملی ہے ۔ اس کو خود سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مقدس زبان سے سنئے ۔
اصل واقعہ کیا تھا ؟
شیخین رحمۃ اللہ تعالی علیہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ، آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے فارغ ہو کر روانہ ہوئے ۔ اور مدینہ طیبہ پہنچنے سے پہلے ایک مقام پر پڑاؤ کا حکم فرمایا میں اٹھی اور قضائے حاجت کیلئے لشکریوں کے پڑاؤ اور ٹھہراؤ سے ذرا فاصلے پر باہر چلی گئی، فراغت پاکر اپنی قیام گاہ پر لوٹی تو اتفاق سے میرا ہاتھ سینے پر گیا، تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہار گلے میں نہیں ہے ۔ وہ ہار جزع غفار کا بنا ہوا تھا۔ میں اسی جگہ پر واپس گئی تو ہار کو تلاش کرنے لگی ۔ اور اس تلاش میں دیر لگ گئی ۔ادھر لشکر روانہ ہو رہا تھا جو لوگ میرا کجاوا (محمل ) اونٹ پر رکھتے اور باندھتے تھے وہ آئے اور یہ سمجھا کہ میں اس کجاوے (محمل ) میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ محمل کو اٹھاکر اونٹ کی پیٹھ پر باندھ دیا ۔ میں ایک کم وزن اور سبک جسم عورت تھی ۔ لہذا ان کو یہ پتہ نہ چلا کہ محمل خالی ہے یا بھرا ہوا ہے۔ میں جب ہار تلاش کرکے اقامت گاہ پر لوٹی تو لشکر روانہ ہو چکا تھا ۔ جہاں لشکر کا پڑاؤ تھا، وہاں پر اب کوئی بھی موجود نہ تھا جس جگہ پر میرا ڈیرہ تھا میں اس جگہ آکر بیٹھ گئی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھ کو نہ پائیں گے تو کسی کو بھیج کر مجھ کو بلوالیںگے ۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں بوجھل ہوئیں، نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ جو لشکر کے پیچھے ''معقب کارواں'' کی خدمت پر مامور تھے ( معقب کاروں یعنی پہلے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قافلہ یا لشکر کوچ کرتا تھا تو ایک شخص کارواں یا لشکر کے پیچھے رکھا جاتا تھا تاکہ کارواں سے کسی کی کوئی چیز گر جائے تو وہ شخص اٹھالے اور پھر منزل پر پہنچ کر امیر کارواں کے سپرد کر دے ، اور امیر کارواں تحقیق کرکے جس کی وہ چیز ہو اسے دےدے ) حضرت صفوان بن معطل صبح کے وقت اس مقام پر پہونچے اور مجھ کو سوتا پایا ۔ چونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے جب عورتوں کے شرعی پردے نہ تھے، تب انہوں نے مجھ کو دیکھا تھا، اس لئے انہوں نے مجھ کو پہچان لیا ۔ اور مجھ کو پہچان لینے پر فوراً استرجاع پڑھا ۔ یعنی '' انا للہ و انا الیہ راجعون''. ان کے استرجاع پڑھنے سے میں بیدار ہوئی اور چہرے اور جسم کو میں نے چادر میں اور زیادہ چھپالیا ، حضرت صفوان نے استرجاع کے علاوہ کچھ بھی نہ کہا اور نہ میں نے کچھ سنا ۔ انہوں نے اونٹنی سے اتر کر اونٹنی کو بٹھایا اور میں جا کر سوار ہوگئی ۔ اور حضرت صفوان اونٹنی کو کھینچ کر چل دیئے ۔ ہم نے چل کر لشکر کو سخت دھوپ اور گرمی کے وقت ٹھہراؤ میں پالیا ۔پھر ہلاک ہوا جس کو میرے معاملے میں ہلاک ہونا تھا اور جس شخص نے سب سے بڑھ کر اس کی تشہیر اور اتہام طرازی کی وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا۔
حوالہ: (الخصائص الکبریٰ فی معجزات خیر الوری از :امام علامہ جلال الدین سیوطی اردو ترجمہ ، جلد ١۔ ص ٤٤٩ تا ٤٥٠)
بس اتنی سی بات تھی لیکن مدینہ طیبہ کے منافقین اور خصوصاً عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق نے اپنے خبث باطن اور دل میں چھپے ہوئے نفاق کا اظہار کرتے ہوئے ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کے خلاف تہمت اور افترا پردازی کا طوفان کھڑا کر دیا ۔ فتنے کا طوفان برپا ہوگیا ۔ منافقین کے ساتھ کفار اور مشرکین بھی شامل ہوگئے، کچھ ضعیف الاعتقاد، سادہ لوح ، بھولے بھالے مسلمان بھی ان کے بہکاوے میں آگئے۔
جہاں دیکھو وہاں صرف ایک ہی بات ، مبالغہ ، غلو اور جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ منافقین نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت اور شہرت دی کہ خدا کی پناہ۔ ایک عظیم فتنہ کھڑا ہو گیا ۔ حالانکہ اجلّہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے منافقین کے بہتان و افک کا دندان شکن جواب دیا اور بارگاہ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی کا اظہار کیا ۔
امیر المؤمنین خلفیۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے جسم اقدس پر جب کہ مکّھی تک نہیں بیٹھتی کیونکہ اس کے پاؤں نجاستوں سے آلودہ ہوتے ہیں تو حق تعالی آپ کے لئے کیسے گوارا کرے گا، اس بات کو جو اس سے کہیں زیادہ بد ترین ہو اور اس سے آپ کی حفاظت نہ فرمائے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کا سایہ زمین پر نہیں گرتا، مبادا کہ وہ زمین ناپاک ہو ۔ حق تعالی جب کہ آپ کے سائے کی اتنی حفاظت فرماتا ہے تو آپ کی زوجہ محترمہ کی ناشائستگی سے کیوں نہ حفاظت فرمائے گا ۔ مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! حق تعالی نے اتنا گوارا نہیں فرمایا کہ آپ کے پائے اقدس کے نعلین مبارک میں نجاست کی آلودگی ہو اور وہ آپ کو اس کی خبر دیتا ہے کہ آپ نعلین کو پائے اقدس سے اتار دیں ۔ تو اگر یہ واقعہ نفس الامر میںوقوع پذیر ہوتا تو یقینا رب تبارک و تعالی آپ کو اس کی خبر دیتا ۔
(١)مدارج النبوۃ از شیخ عبد الحق محدث دہلوی اردو ، جلد ١۔ ص ٢٨٠ ۔
(٢) الخصائص الکبری ، امام جلال الدین سیوطی ۔ اردو ترجمہ جلد ١۔ ص۔ ٤٥٣۔ )
حضور اقدس ؐنے اشارۃً الزام کی تردید فرمائی
منافقین و مشرکین کی جانب سے حضرت سیدتنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عصمت اور پاک دامنی پر مسلسل الزامات و اتہامات کا سلسلہ جاری رہا ۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ اور مبالغہ ہوتا رہا۔ ادھر صحابہ کرام و جانثاران بارگاہ رسالت منافقین کے اقوال و الزامات کی تردید فرماتے رہے۔ یہ معاملہ ایک ماہ سے زیادہ طول پکڑ گیا ۔ حضور اقدس ؐ نے بر بنائے مصلحت سکوت فرمایا اور منافقین کو کچھ جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت اور پاک دامنی سے آپ یقینا با خبر تھے لیکن مصلحت ایزدی کی بنا پر آپ نے اپنی رفیق حیات کی برأت کا صراحۃً اعلان نہ فرمایا ۔ البتہ اشارۃً اپنے جاں نثار صحابہ کے سامنے ان الفاظ میں ذکر فرمایا کہ وَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلیٰ أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے ۔
یہاں تک کہ اس فتنہ کے دوران آپ نے مسجد نبوی میں دوران خطبہ فرمایا کہ '' کون ہے جو میری مدد کرے ، اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی '' ( اس سے مراد عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا ) پھر فرمایا کہ '' قسم ہے خدا کی ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا ''
قارئین کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ اس واقعہ کا گہری نظر سے مطالعہ فرمائیں اور اس پر غور و فکر فرمائیں کیونکہ اس واقعہ کے ضمن میں جس طرح زمانہ اقدس ؐ کے منافقین نے فتنہ برپا کر رکھا تھا، اسی طرح دور حاضر کے منافقین فرقہ وہابیہ، نجدیہ ، تبلیغیہ وغیرہم نے بھی اس واقعہ کے ضمن میں بہت اودھم مچا رکھا ہے اور اس واقعہ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کی نفی میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ اور معاذ اللہ یہاں تک بکواس کرتے ہیں کہ اگر حضور اقدس ؐ کو علم غیب ہوتا تو آپ علی الاعلان حضرت عائشہ کی برأت ظاہر کرتے ۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ۔ لہذا ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔ دور حاضر کے منافقین کا یہی شیوہ ہے کہ وہ توہین و تنقیص رسالت کرنے کیلئے قرآن کے معنی اور احادیث کے مفہوم میں ترمیم و تردد پیدا کرکے لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں بقول :
ذکر روکے فضل کاٹے ، نقص کا جویاں رہے
پھر کہے مردک کہ ہوں امت رسول اللہ کی
( از : امام احمد رضاؔ ، محدث بریلوی)
مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اس واقعہ میں کیا کیا اسرار و رموز مخفی تھے؟نیز حضور پاک ؐ نے کس مصلحت کی بنا پر سکوت فرمایا؟ اور اس میں کیا حکمت تھی ؟وہ انشاء اللہ کتاب کے اختتام میں عرض کروں گا ۔ پہلے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر کرتا ہوں ۔
جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا لشکر کے قافلے سے بچھڑ گئیں اور قافلہ جب روانہ ہوگیا تب تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ حضرت عائشہ بچھڑ گئی ہیں ۔ محمل اٹھانے والوں نے یہی سمجھ کر محمل (کجاوے) کو اونٹ پر رکھ دیا تھا کہ آپ اس کے اندر تشریف فرما ہیں ۔ لیکن جب یہ لشکر مدینہ شریف کے قریب صلصل نامی مقام پر ٹھہرا اور اونٹ بٹھائے گئے، مگر محمل سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا باہر تشریف نہ لائیں، تب پتہ چلا کہ آپ پیچھے رہ گئیں ہیں، ان کے انتظار میں لشکر بمقام صلصل ٹھہرا رہا لشکر میں پانی اس انداز سے تھا کہ مدینہ شریف پہنچ جائے ۔ لیکن ام المومنین کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے قافلہ کو مجبوراً ان کے انتظار میں رکنا پڑا اور لشکر میں جتنا پانی تھا، وہ صرف ہوگیا۔ نماز کا وقت آیا تو وضو کیلئے پانی نہیں تھا پینے کیلئے بھی پانی کی تنگی تھی ۔ پانی کے بغیر وضو اور وضو کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ قافلہ محبوبہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و ازواجہ و بارک وسلم کے انتظار میں ٹھہرنے کی وجہ سے پانی کی قلت کی دقت و مصیبت میں مبتلا تھا ۔ لہذا اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کی حرم محترمہ کے صدقے اور طفیل ان لشکر والوں پر مہربان ہو کر، ان پر اور ان کے طفیل قیامت تک کے مسلمانون پر کرم فرماکر تیمم کاحکم نازل فرمایا ۔ جس کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت سید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ صدیقہ میں عرض کیا کہ مَا ھِیَ بِأوَّلِ بَرْکَتِکُمْ یَا آلِ أبِیْ بَکْرٍ اے اولاد ابو بکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں '' مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہونچی ہیں ۔
( مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ ، جلد ٢۔ ص ٢٧٥)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ واپس آئے، تو مشیت ایزدی سے ان ہی دنوں میں بیمار ہوگئی ۔ میں گھر ہی میں تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ میں بیمار رہی ۔ باہر میرے خلاف فتنہ پردازوں نے جو الزامات اٹھا رکھے تھے، اس کا مجھے کچھ پتہ نہ تھا ۔ ایک دن ام مسطح نام کی عورت نے الزام تراشیوں کی اتہام سازیوں کی ساری باتیں مجھ سے بیان کیں ۔ جنہیں سن کر میں پہلے سے زیادہ بیمار ہوگئی۔ ایک روز حضور اقدس ؐ میرے پاس تشریف لائے اور سلام علیک کے بعد مجھ سے فرمایا '' تم کیسی ہو ؟ '' میں نے اپنی کیفیت بتانے کے بعد عرض کیا کہ اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو میں چند دنوں کیلئے اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ۔ حضور نے اجازت عطا فرمائی اور میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر چلی گئی ۔ میں نے اپنی والدہ سے تمام باتیں دریافت کیں ۔ میں تمام رات روتی رہی اور صبح ہوجانے پر بھی میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، تمام شب جاگتی ہی رہی ، پلک تک نہ جھپکی ۔ میں دن بھر مسلسل روتی رہی، میرے آنسو روکے نہ رکتے تھے اور نیند نام کو بھی نہ تھی، مجھ کو اندیشہ ہوا کہ شدت گریہ کی وجہ سے شاید میرا جگر پھٹ جائے گا ۔
حوالہ: (الخصائص الکبری ، اردو ، جلد ، ١۔ ص ٤٥١)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو ملنے میرے گھر تشریف لائے ۔ اور مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ! میرے حضور تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں، لہذا اگر تم بری اور پاک ہو، تو عنقریب اللہ تمہاری پاکی بیان فرمائے گا اور تمہاری برأت کی خبر نازل فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔ کہ حضور کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں ایک قطرہ تک بھی نظر نہ آتا تھا۔ یہ اس خوشی کی بنا پر تھا جو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے بشارت پائی تھی ۔
حوالہ : (١) مدارج النبوۃ ، اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨١
(٢) خصائص کبری، اردوترجمہ ،جلد ١ ۔ ص ٤٥٢)
حضرت عائشہ کی برأت میں قرآنی آیات کا نزول
ام المومنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تبارک و تعالی میری برأت فرمادے گا ۔ اور میری پاکی اور پاک دامنی کی خبر دے گا ۔ لیکن مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اللہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل فرمائے گا ۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو اور اپنے معاملے کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی۔ البتہ مجھ کو صرف اس بات کی توقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید خواب دیکھیں گے اور اس ذریعہ سے مجھ بے چاری کی عفت اور عصمت پر گواہی مل جائے گی ۔ اللہ کا کرم دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ یکایک حضور پر نزول و حی کے آثار نمودار ہوئے اور جو شدت ایسے موقع پر ہوتی تھی وہ شروع ہوئی ۔ حتی کہ آپ کی پیشانی مبارک پر موتیوں کے مانند پسینہ چمکنے لگا ۔ آپ پر خوب ٹھنڈی کے موسم میں بھی نزول وحی کی شدت سے پسینہ وغیرہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ اور یہ اس گرانی اور بوجھ کی وجہ سے ہوتا تھا ، جو کلام مجید آپ پراترتا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کی کیفیت سے فارغ ہوئے، تو آپ کا یہ حال تھا کہ آپ تبسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلی بات جو حضور نے فرمائی وہ یہ تھی کہ '' اے عائشہ صدیقہ ! حق تعالی نے تمہیں بری قرار دے کر تمہیں پاک گردانا ہے ۔ اس تہمت سے تمہاری پاکی بیان کی ہے اور تمہاری شان میں قرآن بھیجا ہے ۔ ''
حوالہ : (١) مدارج النبوۃ ،اردو ترجمہ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣
(٢) خصائص کبری ،اردوترجمہ، جلد ١ ۔ ص٤٥٤)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت إنَّ الَّذِیْنَ جَآؤا بِالإفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ (پارہ ١٨ ، سورہ نور، آیت ١١ )
ترجمہ:'' بے شک وہ کہ یہ بہت بڑابہتان لائے ہیں، تمہیں میں کی ایک جماعت '' ( کنز الایمان ) سے لے کر دس ١٠؎ آیتوں تک وحی ہوئی ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں دس آیات مذکورہ اور دیگر آٹھ٨؎ آیات ملا کر کل ٨ ١؎ اٹھارہ آیات نازل فرمائیں ۔
سورہ نور آیت ٤ ۔ پارہ اٹھارہ میں صاف حکم نازل ہوا کہ:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأتُوا بِأرْبَعَۃِ شُھَدَآءِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَ لاَ تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً أبَدًا ۔
ترجمہ :'' اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ، پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسی٨٠؎ کوڑے لگاؤ اور ا ن کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو ۔'' ( کنز الایمان )
ام المومنین محبوبہ محبوب رب العالمین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت اور افک کے سلسلہ میں قرآن مجید کا انداز بیان بڑا جامع اور پر زور ہے۔ اس میں اعجاز و ایجاز اور احکامات و تنبیہات اس اسلوب سے بیان کئے گئے ہیں کہ معصیت کے کسی دوسرے وقوع اور موقع پر اس انداز سے بیان نہیں کئے گئے۔ تہمت طرازی اور سخن سازی کا منافقین کی طرف سے جو مظاہرہ ہوا، جس سے اہل بیت رسول اور خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جو انتہائی صدمہ ، دکھ ، اور تکلیف پہونچی تھی، اس کی وجہ سے انداز بیان میں شدت ہوئی ہے ۔
الخصائص الکبری فی معجزات خیر الوری میں امام اجل حضرت علامہ عبد الرحمن جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے زمخشری کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ ''اصنام پرستی اور شرک کے بارے میں جو تنبیہات ہیں، وہ بھی مقابلۃً اس سے کچھ کم ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک پاکباز زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت و برأت کی حامل ہیں ۔ ''
وحی کے نزول کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سورئہ نور کی دس١٠؎ آیتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے یہاں سے نکل کر خوش و خرم مسجد نبوی میں تشریف لائے اور صحابہ کو جمع فرماکر خطبہ دیا اور اس کے بعد نازل شدہ آیتوں کی صحابہ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی ۔ اور تہمت لگانے والوں کو طلب فرمایا ۔ تہمت لگانے والے جب بارگاہ رسالت میں حاضر کئے گئے، تو سرکار نے ان پر ''حد قذ ف '' جاری فرمایا اور ہر ایک کو اسی٨٠؎ اسی ٨٠؎ کوڑے لگوائے ۔
( حوالہ: مدارج النبوۃ ۔ اردو ، جلد ٢۔ ص ٢٨٣)
یہاں تک کے مطالعہ سے واقعہ کی ابتدا سے انتہا تک کی واقفیت حاصل ہو چکی ہوگی ۔ اب دور حاضر کے منافقین کے اعتراضات میں سے اہم اعتراض جو اس واقعہ کے ضمن میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پر ہیں اس کا جواب دیں ۔
منافقین زمانہ کے اعتراضات
دور حاضر کے منافقین یعنی وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، اور تبلیغی فرقہ باطلہ کے مبلغین و مقررین اپنے جہالت سے لبریز بیان اور تقریر جو در اصل تقریر نہیں بلکہ تفریق بین المسلمین ہوتی ہے ۔ بڑے تپ و تپاک سے اودھم مچاتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی عصمت و پاک دامنی کے سلسلہ میں حضور نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ تک سکوت کیوں فرمایا ؟ آپ نے فی الفور ان کی برات کا اعلان کیوں نہ کر دیا ؟ بلکہ وحی کے منتظر رہے ۔ اور جب وحی آئی تب آپ نے برأت کا اعلان فرمایا ۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔ اگر علم غیب ہوتا تو آپ فوراً برأت کا اعلان کردیتے۔ ( معاذ اللہ )
بس یہی ہے ان کے دعوی کی دلیل و برہان ۔ مشیت ایزدی اور حکمت الہیہ کے رموز کو سمجھنے سے یک لخت قاصر وعاجز ہونے کی وجہ سے ایسی بے ڈھنگی بات کہہ رہے ہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ کے پردے میں اللہ تعالی کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں اور ان تمام حکمتوں سے اللہ نے اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرما دیا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ نے سکوت فرمایا تھا۔ کچھ وجوہات ذیل میں عرض ہیں ۔
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی تھی ، منافق اس کو کہتے ہیں کہ جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو لیکن دل سے وہ مومن نہیں ہوتا ۔ زبان سے تو قسمیں کھا کھا کر حضور اقدس ؐ کو اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتے تھے لیکن پیٹھ کے پیچھے حضور کی شان میں نا زیبا کلمات کہہ کر آپ کی گستاخی کرتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے ۔منافقین کی ان دو غلی باتوں کا اللہ نے پردہ فاش فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ بنام '' منافقون '' نازل فرمائی ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
'' إذَا جَا ۤءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوا نَشْھَدُ إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہ، وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ '' ( پارہ ٢٨ ۔ سورہ منافقون ۔ آیت ١)
ترجمہ: ''جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ،کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں '' (کنزاالایمان)
ان منافقین کی ایک خصلت کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ :
''إذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَالُوْا آمَنَّا وَ إذَا خَلَوْا إلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْا إنَّا مَعَکُمْ إنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِؤُنَ'' ( پارہ ١۔ سورئہ البقرۃ ، آیت ١٤)
ترجمہ: '' اور جب ایمان والوں سے ملیں ، تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں، تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یوں ہی ہنسی کرتے ہیں ۔'' ( کنز الایمان شریف )
رسول کے ماننے میں اور ایمان کے اقرار میں منافقین دو غلی بولی بولتے ہیں اور ان کے اقرار و ایمان کا کچھ بھی اعتبار نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ منافقین ضرور جھوٹے ہیں ۔ منافق کو صرف جھوٹا نہیں بلکہ'' ضرور جھوٹا'' کہا گیا ہے ۔ یعنی ان کا جھوٹ اتنا عام ہے کہ ان سے صدق کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ۔ منافقوں کی بے حیائی اور بے شرمی کا یہ حال تھا کہ ابھی انکار اور ابھی رجوع ۔ بلکہ دن کے اجالے کو رات کی اندھیری کہہ دینے میں بھی ان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے، آپ کی تکذیب کرتے تھے ،آپ کے بین معجزات کو معاذ اللہ جادو اور سحر کہتے تھے ۔ لہذا ان جھوٹوں کے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برأت کا اعلان کرنا بے سود تھا ۔ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان فرماتے، تو منافقین ایک الزام یہ گڑھتے کہ دیکھو! اپنی بیوی کا دفاع کر رہے ہیں ، زوجیت کی بناء پر طرفداری کر رہے ہیں، اپنی بیوی کے عیب پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
حضور اقدس ؐ کو یقین کے درجہ میں اس معاملہ کا علم تھا
حالانکہ حضور اقدس ؐ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں یقینا با خبر تھے۔ اسی لئے تو اپنے جانثار صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے سامنے حضرت عائشہ کے معاملے میں فرمایا وَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أھْلِیْ إلَّا خَیْرًا یعنی :'' خدا کی قسم ! میں اپنی اہل سے پارسائی کے سوا کچھ نہیں جانتا '' اس جملے کو غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ حضور نے اس جملے کو'' وَ اللّٰہِ'' یعنی ''خدا کی قسم '' سے مؤکد فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور کو حضرت عائشہ کی عصمت کا صرف گمان نہیں تھا بلکہ یقین کامل تھا ۔ اسی لئے تو اللہ کی قسم سے جملے کی ابتدا فرماکر اپنے یقین کامل کا اظہار فرمارہے ہیں ۔ جب نبی اور رسول معصوم ہیں ۔ ان سے گناہ کا صادر ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے ۔ قرآن میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان ہے۔ تو نبی اور رسول کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتے ۔ اور پھر جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانا، اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ۔ ہر مومن کا یہ عقیدہ ہونا لازم ہے کہ رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور کبھی بھی خدا کی جھوٹی قسم نہیں کھاتے ۔ تو جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کے سامنے خدا کی قسم کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت فرمارہے ہیں، تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو اس واقعہ کی حقیقت کا یقین کے درجہ میں علم تھا، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تہمت لگانے والا اور فتنہ اٹھانے والا کون ہے؟ اسی لئے مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ :''کون ہے جو میری مدد کرے؟ اور اس شخص سے انتقام لے جس نے بلا شبہ مجھے اور میری اہل کو ایذا پہنچائی ''حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے جوش الفت کے جذبے کے تحت طیش میں آکر منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا، اس سے انتقام لینے کیلئے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے لیکن حضور نے انہیں باز رکھا ۔ اور مصلحتاً خاموش کر دیا کیونکہ اگر حضور ان حضرات کو اجازت انتقام عطا فرماتے اور وہ تہمت لگانے والے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو قتل کردیتے، تو دیگر منافقین یہ واویلا مچاتے کہ حضور نے اپنی زوجہ کی طرفداری میں حقیقتِ واقعہ کو چھپانے کیلئے عبداللہ بن ابی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ اپنی زوجہ کی پاک دامنی کا کوئی ثبوت نہ تھا، لہذا قتل و غارت گری کی راہ اپنائی ۔ اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کو خاموش کر دیا۔ تاکہ فتنہ کی آگ اور زیادہ نہ بھڑکے ۔
دور حاضر کے منافقین صرف اسی بات کی رٹ لگاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان نہ کرتے ہوئے سکوت کیوں اختیار کیا ۔ اس کا جواب ضمناً تو اوپر بیان ہو چکا کہ اگر آپ برأت کا اعلان فرماتے تو منافقین ماننے والے نہ تھے بلکہ دیگر الزامات تراشتے ۔اس لئے حضور نے سکوت فرمایا ۔ اور ایک اہم مصلحت یہ تھی کہ حضور برأت کا اعلان کریں وہ اتنا مؤثر نہ ہوگا جتنا کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے اعلان برأت کا اثر ہوگا ۔ اس کو ایک آسان مثال سے سمجھیں کہ ایک بادشاہ کی کوئی چیز گم ہوگئی ،کچھ مخالف لوگوں نے چوری کا الزام بادشاہ کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر لگایا۔ حالانکہ کہ وزیر اعلیٰ کا بیٹا بے قصور تھا۔ وزیر اعلیٰ کو اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا یقین کے درجہ میں علم ہے ۔ لیکن وقت کا تقاضا اور مصلحت حالات یہ ہے کہ وزیر خاموش ہی رہے ۔ کیونکہ اگر وزیر اٹھ کر اپنے بیٹے کے بے قصور ہونے کا اعلان کرے گا تو الزام لگانے والے مخالفین کا گروہ یہی کہے گا کہ اپنے بیٹے کی محبت اور طرفداری میں وزیر اعلیٰ اپنے عہدے اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ لہذا وزیر اعلیٰ سکوت اختیار کرے یہی بہتر و مناسب ہے، چاہے تہمت کی آندھی کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوجائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صبر کرے اور خاموش رہ کر اس وقت کا انتظار کرے کہ حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے ۔ا چانک ایک دن بادشاہ سلامت کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ وزیر اعلی کے فرزند ارجمند پر چوری کا جو الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ بری اور بے قصور ہے ۔ وزیر زادہ دیانتدار اور نیک بخت ہے ۔ ایسے نیک بخت پر چوری کا الزام لگانا ، ظلم شدید اور گناہ عظیم ہے ۔ ہم وزیر زادہ کو اس چوری کی تہمت سے باعزت بری کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم نافذ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسے نیک بخت اور دیانتدار پر غلط الزام لگاتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ اس اعلان کے بعد الزام لگانے والوں کو بادشاہ کوڑے لگوائے اور کوڑے لگانے کا کام اپنے وزیر کے ہاتھ سے انجام دلوائے ۔
اب قارئین کرام ،سوچیں ! وزیر زادہ کی عزت کس میں بڑھی ؟ اگر وزیر اپنے بیٹے کی برأت کا اعلان کرتا ہے تو اس میں وہ عزت و شان حاصل نہ ہوتی جو عزت اور مرتبہ بادشاہ کے اعلان سے حاصل ہوا ۔ ٹھیک اسی مثال کو حضرت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعہ میں ذہن نشیں کرکے سوچیں کہ حضور اقدس ؐ کی طرف سے برأت و عصمت کے اعلان میں منافقین کو طرفداری اور پاسداری کے الزام کی گنجائش تھی ۔ لیکن جب اللہ تبارک و تعالی نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا، تو اب کسی کو سسکنے کی ، کھسکنے کی ، بدکنے کی، رینگنے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔
اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برات کا اعلان فرماتے تو وہ حدیث کہلاتی اور یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں دیگر واقعات کی طرح شمار کیا جاتا ۔ حدیث کے متن (عبارت ) کی نماز میں تلاوت نہیں ہوتی لیکن اللہ نے حضرت عائشہ کی برات کا قرآن مجید میں اعلان فرمایا۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی عظمت قیامت تک نماز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہے ۔ عوام مسلمین میں دینی تعلیم و معلومات حاصل کرنے کی رغبت اور شوق دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم لوگ اپنی اولاد کو دے پاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں حدیث و فقہ کے علم کی طرف بہت کم افراد مائل ہیں۔ اگر برأت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بذریعہ حدیث ہوتی تو اتنی شہرت و عزت نہ ملتی جتنی کہ قرآن مجیدسے برأت ہونے پر حاصل ہوئی ۔
چھوٹا سا دیہات ہوگا ، چاہے اس میں مسلمان کے دور چار ہی مکان ہوں لیکن وہاں کسی نہ کسی گھر میں قرآن مجید ضرور ہوگا ۔ لیکن وہاں کتب احادیث کا ہونا ناممکن ہے ۔بلکہ اکثر شہروں میں جہاں دار العلوم نہیں ہوتے وہاں بخاری شریف ، مسلم شریف و دیگر کتب احادیث کا ہونا نا ممکن ہے ۔ علاوہ ازیں دنیا کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں کلام مجید کا نسخہ موجود نہ ہو ۔ بر عکس اس کے کتب احادیث بہت کم دستیاب ہیں۔ تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعہ برأت حضرت عائشہ کا جو اعلان فرمایا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کی شان و شوکت کا ڈنکا قیامت تک بجتا رہے ۔
اگر بجائے قرآن مجید احادیث سے حضرت عائشہ کی برأت و عصمت کا اعلان ہوتا، تو منکرین عظمت کو تنقیص کیلئے ایک راہ یہ ملتی کہ وہ اپنی ذہنی اختراع سے یہ کہہ دیتے کہ '' یہ حدیث ضعیف ہے '' جیسا کہ دور حاضر کے منافقین وہابی ، نجدی ، دیوبندی ، تبلیغی لوگ عظمت و تعظیم مصطفی ؐ کے جواز و ثبوت کی احادیث سے عوام کو بے التفات و بے اعتماد کرنے کیلئے بلا کسی ثبوتِ علم اسماء الرجال کہہ دیتے ہیں کہ ''یہ حدیث ضعیف ہے '' لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت کو ضعیف کہنے کی کسی میں جرأت نہیں ۔ اور اسی حکمت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اعلان قرآن مجید میں کیا گیا ہے ۔
عورت کے حقوق کی پاسداری
اسلام ایک ایسا کامل مذہب ہے کہ جس نے نوع انسان کو حیات جاودانی بخشی ہے ۔ حقوق الناس کی صحیح پہچان اور نشاندہی اسلام ہی نے عالم دنیا کو بتائی ہے۔ اسلام نے دنیا کو معاشرت کا صحیح طریقہ و سلیقہ دکھایا ہے ۔ ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی حمایت کرنا اسلام کا طریق عمل ہے ۔ خصوصاً عورتوں پر اسلام کا عظیم احسان ہے ۔ ابتدائے اسلام کے دور میں عورت کو اتنا ذلیل سمجھا جاتا تھا کہ اگر کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تھی، تو گویا اس کو سانپ سونگھ گیا ہو ایسا اس کا چہرہ ہوجاتا تھا اور سماج کے رواج کے مطابق لڑکی کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ میراث میں عورت کو کچھ بھی اہمیت نہیں دی جاتی تھی ۔ عورت کو صرف دل بہلانے کا کھلونا سمجھ کر اس سے دل لگی کی جاتی تھی ۔ اور جب اس سے جی بھر جاتا، تو اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکتے تھے ۔ عورت پر زنا اور دیگر عیوب کے الزام لگاکر اس کو رسوا اور ذلیل کردینا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ کسی بھی با عصمت و پاک دامن خاتون کو ایک آن میں فاحشہ اور بدکردار کے القاب سے نوازنے میں کسی بھی قسم کی جھجک محسوس نہیں کی جاتی تھی، جس کے جی میں جو آیا، وہ منہ سے کہہ دیتا تھا لیکن محبوبہ محبوب رب العالمین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ کا روئے زمین کی تمام عورتوں پر احسان ہے کہ آپ کے سبب سے قرآن مجید میں عورتوں کی عصمت کی پاسداری اور پاسبانی کی گئی۔ ان کی پاک دامنی کی عظمت کی حفاظت کی گئی اور بات بات میں عورتوں کی پاک دامنی پر تہمت کا کیچڑ اچھالنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے قرآن مجید پارہ ١٨ سورہ نور ، آیت نمبر ٤ میں صاف اور صریح حکم فرمایا گیا کہ:'' اور جو لوگ پارسا عورتوں کو عیب لگائیں ،پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں ، تو انہیں اسی ٨٠؎ کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو۔'' ( کنز الایمان )
اس آیت کے نزول سے عورتوں کی پارسائی پر چھوٹی چھوٹی باتوں میں فعل قبیح کی تہمت لگانے والوں کے منہ پر علی گڑھی تالے لگ گئے ۔ صرف منہ پہ تالا ہی نہ لگایا گیا بلکہ تالا کھولنے والوں کو اسی ٨٠؎ کوڑے لگانے کی سزا متعین کی گئی۔ جس کو شرعی اصطلاح میں '' حد قذ ف '' کہا جاتا ہے۔ صرف قذف پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ تہمت لگانے والے کو دائمی طور پر '' مردود الشہا دۃ '' قرار دیا گیا ۔ یعنی ہمیشہ کیلئے اس کی ہر گواہی متروک و غیر معتبر کر دی گئی ۔ مذکورہ آیات کے علاوہ کئی آیات جھوٹی تہمت لگانے والوں کی مذمت میں سورہ نور میں نازل ہوئی ہیں ۔ جن کا تفصیلی ذکر یہاں نہ کرتے ہوئے صرف اتنا ہی عرض کر دیتا ہوں کہ ایسے تہمت بازوں کو سورہ نور میں فاسق ، جھوٹا ، اس پر اللہ کی لعنت وغیرہ وعیدوں سے ڈرایا اور خبر دار کیا گیا ہے ۔ اور مردوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ عورت بھی خدا کی ایک معزز مخلوق ہے ۔ اس کو حقیر اور ذلیل مت جانو، اس کو ہیچ سمجھ کر اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنا ترک کر دو ، اس کی عزت و آبرو کی نگہبانی کرو ، اس کے دامن عصمت کو تہمت و الزام سے داغدار کرنے سے باز رہو ۔ ورنہ اسی٨٠؎ کوڑے ، مردود الشہادۃ ، فاسق ، جھوٹے ، اور اللہ کی لعنت کے حقدار جیسی سزائیں بھگتنے کیلئے تیار رہو ۔ یہی اسلامی تہذیب ہے ۔ اس کے دائرے میں رہو اور یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا۔
اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت حضور اقدس ؐ اپنی طرف سے فوراً فرمادیتے اور وحی کا انتظار نہ فرماتے تو :-
= کیاسورہ نور کی دولت سے ہم سرفراز ہوتے ؟
= کیا اس میں معاشرے کے نظام کی درستگی کے جو احکامات ہیں وہ ہمیں نصیب ہوتے ؟
= عورتوں کی عزت و آبرو کی پاسداری اور پاسبانی کی تعلیم ہم کو حاصل ہوتی ؟
= عورتوں کی عصمت اور پاکدامنی کی تا قیامت جو حفاطت کی گئی ہے وہ کیاحاصل ہوتی ؟
= تہمت و الزام تراشی جیسے قبیح و مذموم طور و اطوار کے ترک کرنے کا حوصلہ ملتا؟
= کیا یہ اخلاقی محاسن دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے ؟
ان تمام احکامات و وجوہات کی بنا پر عالم ما کان و ما یکون، علم غیب جاننے والے، ہر بات سے با خبر، پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرماکر سکوت فرمایا ۔ اس حکمت عملی کو سمجھنے سے قاصر و عاجز، کور چشم و کور باطن دور حاضر کے منافقین نے سکوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط استدلال حاصل کرکے یہ واویلا مچا رکھا ہے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا ۔
برأت عائشہ میں تاخیر کی حکمت
دور حاضر کے منافقین ایک شور یہ بھی مچاتے ہیں کہ برأت حضرت عائشہ صدیقہ کے معاملے میں حضور نے عجلت کیوں نہ فرمائی ۔ اور اتنی تاخیر کیوں کی ؟ اب اسی سوال کو ہم دور حاضر کے منافقین کی جانب لوٹاتے ہیں کہ برأت حضرت عائشہ کے تعلق سے اللہ تعالی نے قرآنی آیات کے نزول میں تاخیر کیوں فرمائی ؟ ہے کوئی آپ کے پاس اس کا جواب ؟ لیکن بحمدہ تعالی اہل سنت و جماعت کے پاس اس کا شافی و وافی و کافی جواب ہے ۔نزول آیات قرآن کی تاخیر میں بھی کئی حکمتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر کوئی معاملہ پیش آئے اور فوراً اس کا تدارک کر دیا جائے تو اس معاملہ کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔ فی الفور رفع دفع ہوجانے والا معاملہ صرف کچھ دنوں تک عوام الناس میں زیر بحث اور موضوع سخن رہتا ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ اسے فراموش کردیتے ہیں ۔ اور اس کے اثرات تادیر قائم نہیں رہتے اور نہ ہی اس واقعہ کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے ۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ فی الفور حل شدہ معاملے میں لوگوں کے نظریات و تخیلات بھی کامل طور سے رونما نہیں ہوتے ۔ بہت سے لوگوں کے تفکرات اندر ہی اندر دب کر رہ جاتے ہیں ۔ ان کو اظہار کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ ایسی صورت میں لوگوں کے ذاتی رویئے کا پتہ نہیں لگتا کہ جناب عالی کس جانب ہیں؟ موافقین میں سے ہیں یا مخالفین کی گروہ میں شامل ہیں تاکہ تمیز ہو سکے کہ یہ اپنا ہے یا پرایا ؟
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی تہمت کا معاملہ کوئی معمولی حادثہ نہ تھا ۔ اللہ تعالی کے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کی عصمت کا معاملہ تھا۔ اور در پردہ قیامت تک آنے والی تمام خواتین کی عزت وآبرو کا معاملہ تھا۔ تہمت کا تعلق کردار سے تھا ، پاک دامنی سے تھا ، ایک عورت کے لئے اپنی عصمت سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ ایک عورت اپنی عصمت کے تحفظ کیلئے دنیا کا سارا عیش وآرام قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت مستعد ہوتی ہے ۔ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی تہمت کا معاملہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فوراً رفع دفع فرمادیتے، تو اس سے معاملہ کی اہمیت اور سنگینی کا احساس نہ ہوتا۔ آئے دن ایسے اتہامات کا اعادہ اور سلسلہ جاری رہتا۔ صرف حضرت عائشہ صدیقہ ہی نہیں بلکہ اور بھی پاک دامن خواتین کے دامن عصمت جھوٹی تہمتوں سے داغدار ہوتے رہتے ۔ اور اس کا دائمی طور پر کوئی تدارک نہ ہوتا ۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے سے اس قسم کے رذیل افعال کو نیست و نابود فرمانے میں جو کردار ادا فرمایا ہے، وہ پوری دنیا کے لئے ضرب المثل ہے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ الزام تراشی کی عادت قبیحہ کو اس طرح ختم کیا جائے اور ایسے اقدام کئے جائیں کہ کوئی بھی شخص کسی پاک دامن عورت کی عصمت پر تہمت لگانے سے پہلے اس کے انجام سے با خبر اور خوفزدہ ہوکر اس کے ارتکاب سے تھر تھر کانپے ۔
آج تو میری زوجہ محترمہ کی عصمت کو نشانہ بنایا گیا ہے، کل کسی اور پاک دامن خاتون کی ردائے عصمت کو خنجر تہمت سے پاش پاش کیا جائے گا ۔ لہذا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سبب بنا کر عصمت النسا کے تحفظ کے دائمی اور مستقل اقدام اٹھائے جائیں۔ اسی لئے اس معاملہ کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی اور اہمیت دینے کیلئے ہی اس معاملہ کو اتنا طول دیا گیا ۔ طول دینے سے اہم امر یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ سماج کے سب لوگ اس سے واقف ہوجاتے ہیں اور سب لوگوں کی آراء و نظریات معلوم ہو جاتے ہیں تاکہ کل اٹھ کر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے اس معاملہ کی اطلاع ہی نہ ہوئی ، ورنہ میں اپنی رائے اس طرح پیش کرتا ۔ تو جب سماج کے سب لوگ اس سے واقف ہوجاتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس معاملے کا حل اور فیصلہ ہوتا ہے تو پھر کسی کو غیر مطمئن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اور ا ن سب امور کے حصول کے لئے معاملے کو طول دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی شخص بعد میں اپنی لا علمی کا اظہار و بہانہ نہ کر سکے ۔ لہذا اسی غرض و حکمت کی بنا پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی جھوٹی تہمت کے معاملے کو ایک ماہ سے زیادہ مدت تک طول دیا گیا ۔
کسی معاملے کو طول دینے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا ۔ اپنی وفا داری اور جانثاری کا دم بھرنے والے کا امتحان ہوتا ہے کہ عین وقت پر کون ثابت قدم رہتا ہے اور کس کے پائے استقلال میں تزلزل آجاتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہوتا ہے کہ کون مخلص ہے اور کون غیر مخلص ؟ بہت سے لوگ کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ تذبذب کے شکار رہتے ہیں ۔ان کے عزم و ارادے ، فیصلے اور رائے میں اپنا کوئی نظریہ کار گر نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ دوسروں پر منحصر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ماحول کے پیش نظر جہاں جھکاؤں ہوتا ہے اسی طرف جھکتے ہیں ۔ ناقص الرائے اور ناقص العقل ہونے کی وجہ سے وہ لوگ دوسروں کے فعل و ارتکاب کا اتباع کرتے ہیں ۔ ذاتی طور پر کچھ فیصلہ کرنے سے وہ لوگ عاجز و قاصر رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں میں خود اعتمادی اور خود ارادیت Self Determinationکا فقدان ہوتا ہے ۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے ارادوں اور فیصلوں کے محتاج اور مرہون منت ہوتے ہیں ۔ اور یہ خصلت اور عادت مذموم و ناپسندیدہ ہے ۔ کیونکہ اس میں خوف وا ندیشہ ہوتا ہے کہ آدمی حق وباطل کا فیصلہ کئے بغیر کسی کی دیکھا دیکھی میں غلط راہ اختیار کرکے گمراہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا عام حالت میں پتہ نہیں لگتا بلکہ جب کبھی کوئی سنگین معاملہ ہوتا ہے، تب ان کی ذہنی بے مائےگی کا پتہ چلتا ہے ۔ ایسے لوگ ماحول سے متأثر ہوکر ہمیشہ چلتی گاڑی میں چڑھ جانے کی طامع ذہنیت رکھتے ہیں ۔ بلکہ اپنے نفع اور لالچ کے حصول کی خو کی بناء پر اتنے خود غرض ہوتے ہیں کہ ان کو آنکھوں کی شرم بھی نہیں ہوتی، دوستی اور وفاداری کے تمام عہد و پیمان وہ لوگ فراموش کر جاتے ہیں ۔ بتقاضہ دوستی و محبت مصیبت کے وقت مدد کرنا وہ بھول جاتے ہیں ، مدد کرنا تو درکنار، الٹے وہ مخالفت کرنے والوں کے زمرے میں اپنی جائے نشست اختیار کر لیتے ہیں ۔ ایسے جھوٹے مدعی دوستی اور سچے وفادروں کا امتیاز مصیبت کے معاملے کے وقت ہی صحیح طور پر ہوتا ہے ۔ عام حالات میں زبانی اقرار محبت وفاداری تو سب کرتے ہیں لیکن جب موقع آتا ہے تب عاشق صادق سایہ کی طرح ساتھ رہتا ہے اور دھوکے باز اڑ کر سامنے والے کنارے چلا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہری رویئے سے پتہ نہیں چلتا کہ جناب عالی کس فریق سے تعلق رکھتے ہیں ؟لیکن جب موقع آتا ہے تو ایسے لوگ اپنی محبت و عداوت کا اطہار کرنے میں ذرہ برابر کی بھی کاہلی نہیں کرتے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ ان کو تو ہم کیا سمجھتے تھے اور یہ کیا نکلے ۔ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی جھوٹی تہمت کے معاملے کو اتنی لمبی مدت تک طول دینے کے پس پردہ حکمت ایزدی یہی تھی کہ لوگوں کا امتحان اور آزمائش ہوجائے اور اس امتحان کے ذریعہ لوگوں کا امتیاز بھی ہوجائے ۔ قارئین کو حیرت ہوگی کہ منافقین کی باتوں کے جال میں سادہ لوح اور بھولے بھالے مسلمان بھی پھنس گئے تھے اور ان کا شمار بھی اہل افک یعنی تہمت لگانے والوں میں ہوتا ہے ۔ بڑاہی سنگین معاملہ تھا ۔ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے امتحان و آزمائش کا وقت تھا ۔ اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کا ایسے موقع پر امتحان لیتا ہے ۔ جب پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا،تب بھی اللہ تعالی نے لوگوں کا امتحان لیا تھا ۔ جس کی تفصیل اس آیت میں ہے ۔
وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا إلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۔ ( پارہ ٢۔ سورہ بقرہ آیت ١٤٣)
ترجمہ : اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ، ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۔
(کنزالایمان )
اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور امتحان لیتا ہے اور جو امتحان میں ناکام ہوتے ہیں ان پر سزا و عتاب فرماتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی تہمت کے معاملے میں اچھوں اچھوں کا امتحان ہوگیا ۔جو سادہ لوح اور بھولے بھالے مسلمان منافقین کے دام فریب میں آکر اہل افک میں شامل ہوگئے تھے، ان کو حد قذف کی سزا یعنی کہ اسی٨٠؎ کوڑے لگوائے گئے ۔
اس واقعہ کی وجہ سے قرآن مجید میں آیت تیمم نازل ہوئی جو قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے راحت اور آسائش ہے ۔
ایک کہاوت ہے کہ '' خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں بھی چھین لیتا ہے'' زمانہ اقدس ؐ کے منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ پر جھوٹی تہمت لگاکر شہرت اور غلط پروپیگنڈوں کا بازار تو گرم کر دیا لیکن ان کی عقلوں پر بے وقوفی کے پردے پڑگئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ جس شخص کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام جوڑ رہے تھے، وہ شخص یعنی حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ سے ایسی حرکت کے صدور کا امکان ہی نہ تھا۔ کیونکہ حضرت صفوان '' نامرد '' تھے ۔ امام قسطلانی شارح صحیح بخاری فرماتے ہیں کہ '' یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نامرد تھے ۔ اور ان کا آلہ تناسل ناکارہ تھا ۔ خود حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ نے اپنی نا مردگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ میں نے کسی عورت کا پردہ نہیں اٹھایا ۔ مطلب یہ کہ میں نے کسی بھی عورت کے ساتھ جماع نہیں کیا ۔
(حوالہ: مدارج النبوۃ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اردو ترجمہ ، جلد ٢۔ ص ٢٨٤)
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ زمانہ اقدس کے منافقین نے جو تہمت لگائی تھی اس میں کتنا دم تھا ، زمانہ اقدس کے منافقین کی اتباع میں دور حاضر کے منافقین بھی ایسی بے وقوفی سے لبریز باتیں کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برأت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی طرف سے نہ ظاہر کی بلکہ وحی آنے کے بعد اعلان برأت کیا۔ ان عقل کے اعمیٰ کو کیا نہیں معلوم کہ حضور اقدس جو کچھ فرماتے ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کے بتانے پر ، وحی و الہام ہونے پر ہی آپ کلام فرماتے تھے ۔ کبھی آپ کی زبان اقدس سے نکلا ہوا کلام بصورت قرآن ہوتا تھا اور کبھی بصورت حدیث ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی إنْ ھُوَ إلاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی
( پارہ ٢٧ ، سورہ النجم ، آیت ٣ )
ترجمہ '' اور کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔ وہ تو نہیں مگر جو وحی ان کو کی جاتی ہے '' ( کنز الایمان )
دور حاضر کے منافقین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی جھوٹی تہمت کے واقعہ کو آڑ بناکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کی نفی کی راہ نکالنے کی مضحکہ خیز باتیں کرکے خود مضحکہ خیز بنتے ہیں ۔ عداوت و بغض نبی میں اپنے ذہنی اختراع کی بے تکی اور بے جا باتیں اپنی ناپاک زبان سے کہہ کر اپنی بے راہ روی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ حالانکہ حضور اقدس ؐ کے علم غیب کے اثبات میں آیات قرآن ، دفاتر احادیث اور اقوال ائمہ دین اتنی کثیر و وافر تعداد میں شاہد و عادل ہیں کہ کئی ضخیم کتب مرتب ہوسکتی ہیں ۔
امام اہل سنت ،مجدد دین و ملت ،امام احمد رضا محقق بریلوی اس پورے واقعے کی عکاسی اپنے اس شعر میں یوں کرتے ہیں ۔
یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ
ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام
یعنی امام اہل سنت ام المومنین حضرت عائشہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں کہ وہ ایسی پاک دامن اور عصمت و عفت مآب تھیں کہ ان محاسن کی وجہ سے ان کی صورت نورانی تھی '' ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام '' اور یہ حقیقت ہے کہ پاک دامن اور نیک کردار کے چہرے پر ہی نور ہوتا ہے ۔بدعقیدہ اور بد عمل کے چہرے پر نور نہیں ہوتا بلکہ سیاہی اور کالک ہوتی ہے ۔ ان کا چہرہ دیکھنے میں بھی مکروہ محسوس ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے میں ہر سنی مسلمان کو انبیائے کرام علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ و السلام کی سچی عظمت و محبت عطا فرمائے اور انبیائے کرام کی مقدس ازواج کی تعظیم و تکریم کا جذبہ عطا فرمائے ۔ اور ان کی جناب میں نا زیبا و ناشائستہ الفاظ بولنے سے محفوظ و مامون رکھے ۔
آمین ۔ یا رب العالمین ۔
و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ و نور عرشہ سیدناو مولانا محمد و آلہ و أزواجہ و أصحابہ و أہل بیتہ أجمعین ۔ آمین ۔
اُمھات المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھن
1۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبرٰٰی رضی اللہ عنھا
2۔ ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا
3۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا
4۔ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا
5۔ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا
6۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا
7۔ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا
8۔ ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنھا
9۔ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا
10۔ ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حی بن الخطیب رضی اللہ عنھا
11۔ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنھا
1۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالٰی عنھا:-
نسب شریف !
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت خویلد بن اسد عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصٰی میں مل جاتا ہے ۔
کنیت:-
سیدہ رضی اللہ عنھا کی کنیت ام ھند ہے ۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت زاہدہ بن الاصم بن عامر بن لوی سے تھیں۔
اللہ تعالٰی کا سلام۔
صحیحین میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کیا اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا دستر خواں لا رہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔
افضل ترین جنتی عورت!
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنھا ، سیدہ فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مریم بنت عمران اور آسیہ امرۃ فرعون رضی اللہ تعالٰی عنھن ہیں ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی تجارت میں دونا نفع !
سردار مکہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہا نے اپنے کاروبار کیلئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا مال تجارت لیکر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشکش کو بمشورہ ابو طالب قبول فرمالیا ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کر کے دونا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپکی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا ، جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کناں ہیں نیز دوران سفر کے خوارق وکرامات کے واقعات نے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو آپ کا گرویدہ کر دیا ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح !
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخدل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں ۔ بکثرت قریشی آپ سے نکاح کرنے پر آمادہ تھے ، لیکن آپ نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا ۔ سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچا ابو طالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اور دیگر روساء کے ساتھ سیدہ خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ تعالٰی عنھا کے مکان پر تشریف لائے ، جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے ) بوقت نکاح سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ جب تک آپ حیات رہی آپ کی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔
غم گسار بیوی !
غار حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وحی لیکر حاضر ہوئے اور عرض کیا ! پڑھیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ما انا بقاری میں پڑھنے والا نہیں یعنی کسی سے میں نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لیا اور پوری طاقت صرف کی جتنی کے میری اس کے ساتھ تھی ، پھر جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم کو چھوڑ کر دوبارہ کہا پڑھیے ، میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے پھر آغوش میں لیکر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھیے ،میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لیا اور بھینچا اور کہا ۔
اِقرَا باسمِ ربّکَ الّذی خَلَقَ
خَلقَ الانسانَ من عَلقٍَ
اقراء وربُّک الاکرَمُ
آٌلذین علّم بالقَلمِ
علّم الاِنسانَ مَا لَم یَعلَم
ترجمہ :- پڑھو اپنے رب عزوجل کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ، پڑھو اور تمھارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔
اس پر مژدہ واقعہ سے آپکی طبیعت بے حد متاثر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا : زملوانی زملوانی ، مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو ۔ پھر آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ عنھا سے سارا حال بیان فرمایا ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالٰٰی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گا ۔ کیونکہ آپ صلہ رحمی فرماتے ، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ، لوگوں کی سچائی میں ان کی مدد اور ان کی برائی سے خذر فرماتے ہیں ، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں، سچ بولتے ہیں ، اور امانتیں ادا فرماتے ہیں ۔ سیدہ نے ان باتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا اور آپ خوش ہو جاتے تھے اور جب سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ۔
سابق الایمان :-
مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں ۔ کیونکہ جب سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں ۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدناحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ، بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ، اس وقت آپ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ، عورتوں میں سیدنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور موالی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ ( بحوالہ مدارج النبوۃ )
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی فراخدلی :-
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے نکاح کے بعد حاسدین نے جناب سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بارگاہ عالیہ میں نازیبا کلمات کی بوچھاڑ کر دی ۔ کہنے لگے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے مالدار ہونے کے باوجود والئی بیکساں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کر لیا ۔
ان کلمات نے سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو بے چین کر دیا ۔ آپ نے تمام رؤسا کو بلا کر گواہ کیا کہ میں نے اپنا تمام مال مالک کونین صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کر دیا ہے اب اگر مفلس ہوں تو میں ہوں اور یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہو گا اگر وہ میری مفلسی پو راضی ہو جائیں حاضرین مجلس بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بہت ہی مال والے ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا اب مفلس ہو گئیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے جب یہ بات سنی تو آپ کو بہت بھلی معلوم ہوئی اور اس عار کو اپنے لئے فخر سمجھا ۔ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی اس فراخدلی پر بہت خوش ہوئے اور دل میں سوچا کی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی اس فراخدلی کا کیا صلہ دوں ۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئے اور عرض کیا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے اس جذبہ کا صلہ ہمارے ذمہ ہے ۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کی خدیجہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جبکہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انھوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مدد کی جبکہ لوگوں نے مجھے محروم کو رکھا تھا۔
اولاد کرام :-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے پیدا ہوئے فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جبکہ دختران میں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنھن ہیں ۔
وصال :-
آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا تقریباً پچیس سال حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ، آپ کا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوا ، اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی ۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔
ذکر خیر :-
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی سہیلیاں تھیں :-
2۔ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
نسب شریف :-
ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا قیس بن عبد شمس بن عبدود ، قرشیہ عامریہ ہیں ۔ ان کا نسب افضل الانبیاء و المر سلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے لوی میں مل جاتا ہے ۔
ان کی کنیت ام الاسود ہے ۔
ہجرت حبشہ :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ابتدا ہی میں مکہ مکرمہ میں ایمان لائیں ان کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عمرو بن عبد الشمس بھی ان کے ساتھ اسلام لائے جن سے عبد الرحمٰن نامی لڑکا پیدا ہوا ۔ سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے حضرت سکران رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی ۔ ان کے شوہر مکہ مکرمہ بروایت دیگر حبشہ میں فوت ہوئے ۔
سیدہ کا خواب :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جب مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں ملا حظہ فرمایا کہ قدم مبارک ان کی گردن پر رکھا ہوا ہے ۔ اپنا یہ خواب حضرت سکران رضی اللہ عنہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر خواب بعینہ ایساہی ہے جیسا کہ تم بیان کر رہی ہو تو میں بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا اور پیارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں چاہیں گے ۔ پھر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ وصال فرما گئے ۔
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم :-
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے وصال کے بعد پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرصہ تک مغموم رہے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عقد ثانی کے لئے عرض کیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہاں ؟
خولہ نے عرض کیا آپ کے لئے کنواری بھی موجود ہے اور بیوہ بھی ۔ سرکار صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر خولہ نے عرض کیا کہ کنواری تو اس شخص کی بیٹی ہے جو ساری مخلوق میں آپ کو پیارا ہے یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ۔ اور بیوہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جو کہ آپ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لا چکی ہیں ۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دونوں سے کہو ۔ حضرت خولہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف لائیں اور ام رومان والدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مدعّا عرض کیا تو دونوں راضی ہو گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے آپ کا عقد ہو گیا ۔
بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے وصال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور بعض کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ثانی ہوا ۔
حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے پانچ حدیثیں مروی ہیں ایک بخاری میں اور باقی چار سنن اربعہ میں مروی ہیں ۔
وصال :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال ماہ شوال 54ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور مبارک میں ہوا ۔ بموجب روایت دیگر دور خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوا -
3۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا :
سلسلہ نسب :-
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابی قحافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن مرہ بن کعب بن لوی ۔
کنیت ام عبد اللہ :-
آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی کنیت ام عبد اللہ ہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے کنیت مقرّر کرنے کی درخواست کی چنانچہ آپ صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اپنے بھانجے ( یعنی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ ) سے اپنی کنیت رکھ لو ۔
ایک اور روایت میں آٰیا ہے ۔ آپ جب اپنی بہن کے نوائیدا فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰٰی عنھما کو بارگاہ رسالت میں لے کر حاضر ہوئیں تو نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے منہ میں لعاب دھن ڈال کر فرمایا یہ عبد اللہ ہے اور تم اُم عبد اللہ ۔
خواب میں سیدہ کی تصویر :-
ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا فرماتی ہیں کہ رحمت عالمین صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تین رات مسلسل مجھے ایک ریشمی کپڑے پر تمھاری تصویر دکھائی جاتی رہی جسے جبریل علیہ السلام لے کر آتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ہے آپ کی بیوی -
اے عائشہ ! آج جو میں نے تمھارے چہرہ سے کپڑا اٹھایا تو تم اسی تصویر کے مطابق ہو ۔ فرشتہ جب تمھاری تصویر لے کر آتا رہا تو میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ تعالٰٰی کی طرف سے ہے اس لئے یہ رشتہ ہو کر رہے گا ۔
دوسری روایت میں یہ لفظ بھی ہیں ۔ یہ تمھاری بیوی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں جنت میں سرکار ابد قرار صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہوں تو میں ہر قسم کے غم سے بے نیاز ہو گئی ۔
سیدہ کا نکاح :-
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور پیغام سنایا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرما دیا ہے ان کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی ایک تصویر تھی ۔
آپ کا نکاح مدینہ طیبہ میں چھ سال کی عمر میں ماہ شوال میں ہوا اور ماہ شوال میں نو سال کی عمر میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نو سال تک رہیں ۔ جب سید عالم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ماہ شوال میں شادی کی تقریب زیادہ پسند کرتی تھیں اور فرماتی تھیں ۔ میرا نکاح بھی اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی اور مجھ سے زیادہ خوش قسمت شوہر کے نزدیک کوئی نہیں ۔
کسی زمانہ میں شوال میں طاعون کی وبا پھیلنے کے باعث لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے ۔ ان کے ان اوہام باطلہ کو دور فرمانے کے لئے رحمت اللعٰلمین صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینہ میں نکاح کرنا اور رخصت کرانے کا چاہا ۔
حبیبہ ء حبیب خدا :-
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے اعظم فضائل و مناقب میں سے ان کے لئے حضور تاجدار مدینہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بہت زیادہ محبت فرمانا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگا رہے تھے جبکہ میں چرخہ کاٹ رہی تھی ۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کو دیکھا کہ آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پسینہ سے آپ کے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف نگاہ کرم اٹھا کر فرمایا کس بات پر حیران ہو ؟ سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کے رخ روشن اور پسینہ جبین نے مجھے حیران کر دیا ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
کھڑے ہوئے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا اے عائشہ !!
اللہ تعالٰی تمھیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرور کر دیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا ‘‘ اے فاطمہ ! جس سے میں محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو گی ؟
سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کیا ، ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں محبت رکھوں گی ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو عائشہ سے محبت رکھو ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بارے میں بد گوئی کرتے سنا تو حضرت عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ! او ذلیل و خوار خاموش رہ ، کیا تو اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبوبہ پر بد گوئی کرتا ہے ۔
حضرت مسروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذوق روایت !
حضرت مسروق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اکابر تابعین میں سے ہیں جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے روایت کرتے ہیں تو فرمایا کرتے !
حدثنی الصدیقہ بنت الصدیق حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم ، مجھ سے حدیث بیان کی صدیقہ بیٹی صدیق کی محبوبہ رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے یا کبھی اس طرح حدیث بیان کرتے حبیبۃ حبیب اللہ امرائۃ من السماء اللہ کے حبیب کی محبوبہ آسمانی بیوی !!!
سیدہ کا نازو نیاز !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو محبوب کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرنے کی بہت قدرت تھی اور وہ جو چاہتیں بلا جھجک عرض کر دیتی تھیں اور یہ اس قرب و محبت کی وجہ سے تھی جو ان کے مابین تھی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی ۔ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے ۔ انھوں نے دریچہ کے پردہ کو اٹھایا اور گڑیاں حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دکھائیں ۔ حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ سب کیا ہیں ۔ میں نے عرض کیا یہ میری بیٹیاں ہیں یعنی یہ میری گڑیاں ہیں ۔ ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے ۔ فرمایا کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں !
میں عرض کیا شاید حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دندانہائے مبارک کشادہ ہو گئے ۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر حق تعالٰی کی رحمت اور اس کے فضل سے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم !
کیا آپ بھی جنت میں داخل نہ ہونگے مگر خدا کی رحمت سے !
فرمایا ‘‘ ہاں میں بھی داخل نہ ہوں گا مگر یہ کہ مجھے حق تعالٰی نے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دن حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بڑی فراخی سے باتیں کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدہ سے فرمایا بیٹی !
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ نیاز مندی اختیار کرو ۔
جب وہاں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہاں سے چلے آئے تو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ان کی رضا کے مطابق گفتگو کرنے کی اجازت عطا فرمائی ۔ اسی اثنا میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پھر آنا ہوا تو سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بہت خوش پایا تو آپ بھی بہت خوش ہوئے ۔
ایک دفعہ کسی بات پر طرفین کے درمیان شکر رنجی ہوئی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کو بلایا گیا ۔ انھوں نے حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے اتنی سی بات کو بھی نا پسند کیا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو سختی سے ہدایت فرمانے لگے ۔
حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ جائیے یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے اور مسکرا دئیے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب کبھی تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو میں جان لیتا ہوں اور جب کبھی تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو بھی جان لیتا ہوں ۔ میں نے عرض کیا آپ کہاں سے پہنچانتے تھے فرمایا جب تم ہم سے خوش ہوتیں تو کہتی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب عزوجل کی قسم اور جب تم ہم سے خفا ہوتی تو کہتی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے رب کی قسم ۔
میں نے عرض کیا ہاں یا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی تھی ۔ مطلب یہ کہ اس حال میں صرف آپ کا نام نہیں لیتی لیکن آپ کی ذات گرامی اور آپ کی یاد میرے دل میں اور میری جان آپ کی محبت میں مستغرق ہے ۔
تفقہہ فی الدین :-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فقہاء و علماء و فصحاء بلغاء اکابر صحابہ میں سے تھیں اور حدیثوں میں آیا ہے کہ تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیراء یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے حاصل کرو ۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو معانی قرآن احکام حلال و حرام ، اشعار عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے زیادہ عالم نہیں دیکھا ۔
حضرت ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث پاک سمجھنے اور کسی دوسرے مسئلہ کے سمجھنے میں گر کوئی مشکل پیش آتی تو ہم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے دریافت کرتے تو آپ اس مشکل کو حل فرمادیتیں کیونکہ آپ بڑی عالمہ تھیں ۔
ایمان افروز تدبیر :
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا بارش نہ ہونے پر لوگ پریشانی کے عالم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ام المؤمنین !
بارش نہ ہوئی قحط پڑ گیا ہے ۔ ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں ۔ فرمائیے کیا کیا جائے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے فرمایا !
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر جاؤ اور قبر انور کے حجرہ مبارکہ کی چھت سے چند جگہ سے مٹی نکال کر روشندان بناؤ تا کہ قبر شریف اور آسمان کے مابین کوئی پردہ نہ رہے اور آسمان قبر شریف کو نظر آنے لگے ۔
آسمان جب قبر انور کو دیکھے گا تو رونے لگے گا اور بارش ہونے لگے گی ۔
ام المؤمنین کی اس تدبیر پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے عمل کیا اور روضہ انور کی چھت میں کچھ روشندان بنائے تو آسمان کو قبر انور نظر تو بارش شروع ہو گئی اور اتنی بارش ہوئی کہ گھاس اگ آئی ۔ اونٹ موٹے ہو گئے اور ان میں اتنی چربی اور گوشت پیدا ہو گیا ۔ گویا وہ موٹاپے سے پھٹنے لگے
اس سال کا نام سال ارزانی رکھا گیا !
برکات آل ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ !
ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہو گیا ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نےاس منزل میں پراؤ ڈالا تاکہ ہار مل جائے نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس، نماز کا وقت فوت ہونے کے قریب لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کے پاس سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی شکایت لائے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس تشریف لائے ۔ دیکھا کہ راحت العاشقین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پر سختی کا اظہار کیا لیکن سیدہ نے اپنے آپ جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک خواب سے بیدار ہو جائیں ۔
چناچہ صبح ہوگئی اور نماز کے لئے پانی عدم دستیاب ۔
اس وقت اللہ عزوجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمّم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمّم کے ساتھ ادا کی ۔
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا !
ماھی باَوّل برکتکم یا اٰل ابی بکر
اے اولاد ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ تمھاری پہلی برکت نہیں ہے ۔
مطلب یہ کہ مسلمانوں کو تمھاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا گویا حکمت الہٰی عزوجل یہی تھی کہ مسلمانوں کے لئے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے ۔
ارفع شان !
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ بہ نسبت دیگر عورتوں کے مجھے چند امتیازی حیثیتیں حاصل ہیں ۔ شکم مادر میں میری تصویر بننے سے قبل حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو میری صورت دکھائی گئی ۔ مجھے حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ پیار عطا فرمایا اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں میری برات کا اعلان فرمایا ۔ نیز فرماتی ہیں حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں ہوا ۔ بوقت وصال آپ میرے سینہ اور گردن سے تکیہ لگائے ہوئے تھے اور سب سے بڑی نعمت جس سے اللہ تعالٰی نے مجھے نوازا وہ یہ کہ وصال کے وقت میرا لعاب دھن اور حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دھن جمع فرمادیا ۔ جب میرے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لائے انکے ہاتھ میں مسواک تھی ۔ تاجدار مدینہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے جسم سے تکیہ لگائے ہوئے تھے سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مسواک کی طرف دیکھا میں نے سمجھا کہ حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو مسواک پسند ہے لہٰذا میں عرض کیا ! کیا آپ کے لئے مسواک لوں ۔
حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سے ہاں کا اشارہ فرمایا !
میں نے مسواک لے کر حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دی ۔ حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دھن مبارک میں ڈالا تو وہ سخت تھی میں نے عرض کی اسے نرم کر دوں ؟
فرمایا ، ہاں
میں نے مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اسے نرم کر کے حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دی ۔ اور آپ نے اپنے منہ میں ڈال لی ۔ اس طرح میرا لعاب اور لعاب سرور دو جہاں صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جمع ہو گئے۔
خلیفۃ المسلیمن رضی اللہ تعالٰی عنھم کے ایمان افروز اقوال !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی برات میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ۔ام المؤمنین پر افتراء کرنے والے منافق اور جھوٹے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم انور پر مکھی بیٹھنے سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ نجاست پر بیٹھتی ہے پھر آپ کو ایسے اتہام سے کیونکہ محفوظ نہ فرماتا ۔
سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالٰٰی نے آپ کے سائے کو زمین پر نہیں پڑنے دیا تا کہ کسی کا پاؤں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سایہ پر نہ پڑجائے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کیوں نہ فرماتا ۔
سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں آپ کے نعلین شریف کو جب آلودگی لگی تو حضرت جبریل علیہ السلام آکر مطلع فرمائیں اگر ایسی بات ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو الگ کرنے کا حکم بھی نازل ہو جاتا ۔
انفاق فی سبیل اللہ عزوجل !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ اگر تم چاہتی ہو کہ جنت میں میرے ساتھ رہو تو تمھیں چاہئے کہ دنیا میں اس طرح رہو جس طرح کہ راہ چلتا مسافر ہوتا ہے کہ وہ کسی کپڑے کو پرانا نہیں سمجھتا جب تک وہ پیوند کے قابل ہے اور وہ اس میں پیوند لگاتا ہے ۔
مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا !
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ حق تعالٰی مجھے جنت میں آپ کی ازواج مطہرات میں رکھے ۔
سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس رتبہ کی تمنا کرتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچا کے نہ رکھو ۔ اور کسی کپڑے کو جب تک اس میں پیوند لگ سکتا ہے بیکار نہ سمجھو ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت پر اس قدر کاربند رہیں کہ کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کے نہ رکھا ۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ستّر ہزار درہم راہ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ ان کی قمیص کے مبارک دامن میں پیوند لگا ہوا تھا ۔
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنھما نے آپ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ نے اسی دن سب کو اقارب و فقراء پر تقسیم فرمادئیے ۔ اس دن روزہ سے ہونے کے باوجود شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ بچایا ۔ باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم روٹی خریدنے کے لے بچالیتیں تو اچھا ہوتا فرمایا یاد نہیں آیا اگر یاد آ جاتا تو بچا لیتی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب معتبرہ میں دو ہزار دو سو حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بخاری و مسلم میں ایک سو چوہتر متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری میں چوّن اور صرف مسلم میں سٹرسٹھ ہیں بقیہ تمام کتابوں میں ہیں ، صحابہ و تابعین میں سے خلق کثیر نے ان سے روایتیں لی ہیں ۔
وصال !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور حکومت میں 58ھ میں 68 سال کی عمر میں ہوا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وصال کے وقت فرمایا کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔
جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔
باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالٰی ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوبہ تھیں اپنے والد ماجد کے بعد !
4۔ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
نسب شریف :۔
ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھابنت عمر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی والدہ ماجدہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھابنت مظعون، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ مظعون کی بہن ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت خینس بن خذافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں جو شرکاء بدر میں سے تھے سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ان کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔
بعد وصال حضرت خنیس رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی صاجزادی کے نکاح کےلئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا مگر انھوں نے اثبات میں جواب نہ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپکی خواہش ہو تو حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح تمھارے ساتھ کردوں۔ اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو میں غصہ میں آیا اور یہ غصہ اس سے زیادہ تھا جتنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آیا تھا۔ اس کے بعد چند راتیں نہیں گزری تھیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیام دیا اور میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کردیا۔ پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ شائد اس وقت مجھ پر ناراض ہوگئے تھے جبکہ تمھاری پیش کش پر میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔ میں نے کہا میں ناراض ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری پیشکش کا انکار تو نہیں کیا تھا۔ البتہ میں یہ جانتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کیا۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کر لیتا۔
خوشخبری :۔
ایک روایت میں مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ایک طلاق رجعی دی۔ جب یہ خبر سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پہنچی تو بہت دکھ ہوا۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام تشریف لائے کہ اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے رجوع فرمالیں کہ وہ بہت روزہ دار اور شب بیدار ہیں اور وہ جنت میں آپ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا شب بیدار اور بکثرت روزے رکھنے والی تھیں۔ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلی مقام پر فائز ہونگی۔
سدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں سے چار تو متفق علیہ یعنی بخاری و مسلم میں ہیں تنہا مسلم میں چھ اور پچاس دیگر تمام کتابوں میں مروی ہیں۔
وصال :۔
سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال زمانہ امارت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں45ھ یا 41ھ یا 47ھ میں ہوا۔ بعض خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں بتاتے ہیں لیکن پہلا قول صحیح تر ہے۔
5۔ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
سلسلہ نسب !
زینب رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت خزیمہ بن حارث بن عبد اللہ بن عمر و بن عبد مناف بن ہالا بن عامر بن صصعہ ۔
آپ فقراء و مساکین پر نہایت ہی مہربان تھیں ۔ انھیں کھانا کھلاتیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتی تھیں ، لہذا زمانہ جاہلیت میں بھی ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں ۔
آپ کا پہلا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سے ہوا جو نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے غزوہ احد میں شہید ہوئے ، ہجرت کے تیسرے سال۔
حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی شہادت کے بعد آپ ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں ، لیکن آپ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہت کم حیات رہیں ۔ اور رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وصال فرمایا ۔ آپ دو ماہ یا چھ ماہ یا آٹھ ماہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہ کر ماہ ربیع الآخر 4ھ میں اس دار فانی سے کوچ کیا ۔ اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
6۔ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا !
سلسلہ نسب :
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام ھند بنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم آپ کی کنیت ام سلمہ ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ ہے ۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سے ہوا ۔ جن سے چار بچے پیدا ہوئے ۔ آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ واپس آئیں ۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ غزوہ احد میں شریک ہوئے ۔ لڑائی کے دوران جو زخم آئے کچھ عرصے مندمل ہونے کے بعد پھر تازہ ہوگئے ۔ اور آپ نے انہیں زخموں کی وجہ سے 4ھ میں اس دار فانی سے کوچ فرمایا ۔
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم :-
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنا لیا جسے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم فرمائی وہ دعا یہ ہے ۔
اللھمہ اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا ۔
ترجمہ : اے اللہ عزوجل مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر قائم مقام بنا ۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل ہی میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا ۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا تھا اس لئے اسے پڑھتی رہی ۔
نیز سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے سن رکھا کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو میت کے سرہانے موجود ہو اچھی دعا مانگے اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں ۔
جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصال فرمایا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا !
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہو ‘‘ اے اللہ عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اور میری عاقبت کو اچھی بنا ۔
پھر میں اسی دعا پر قائم ہو گئی اور اللہ تعالٰی نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا ۔ اور وہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصال پر حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تعزیت کےلئے ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر تشریف لائے اور دعا فرمائی۔ اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما۔
ایک روایت ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما علیھمہ الرضوان نے اپنا اپنا پیام بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھما نے ان کے پیام کو منظور نہ فرمایا پھر جب حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالٰی عنہ ابی بلتعہ کے ذریعے پیام بھیجا تو کہا مرحبا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے نکاح ماہ شوال 4ھ میں ہوا۔ ان کا مہر ایسا سامان جو دس درہم کی قیمت تھا مقرر ہوا۔
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے تین سواٹھتر حدیثیں مروی ہیں ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم صرف بخاری میں تین حدیثیں اور تنہا مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔
وصال :۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال امہات المومنین میں سب سے آخر میں ہوا۔ آپ کا وصال 59ھ میں ہوا جو صحیح ترہے اور بعض 62ھ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد بتاتے ہیں اور اس قول تائید ایک روایت ہے جسے ترمذی نے ایک انصار کی بیوی سلمی رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت کیا۔ وہ کہتی ہیں میں ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس گئی۔ آپ کو روتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا اے ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کس چیز نے رولایا ہے۔ فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ کا سرانور اور آپ کے محاسن شریف گرد آلود ہیں اور گریہ فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کس بات پر گریا فرمارہے ہیں۔ فرمایا جہاں حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا وہاں موجود تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے وقت حیات تھیں۔
ام المومنین سیدہ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال چور اسی سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔ ان کی نمازہ جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بقول دیگر سعیدبن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
7۔ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنھا
ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام برہ تھا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل فرما کر زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا رکھا۔ آپ کی کنیت ام الحکم تھی۔ آپ کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ پہلے حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بن حارثہ کے نکاح میں تھیں حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد آپ کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ہوا۔
نکاح مع سیدہ المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عدت پوری ہوگئی تو سروردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا جاؤ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کو میرے لئے پیام دو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر پہنچا اور کہا کہ تمھیں خوشی ہو کہ رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تمھارے پاس بھیجا ہے کہ میں سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کےلئے پیام دوں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اس بات کا جواب میں اپنے رب عزوجل سے مشورہ سے دونگی پھر وہ اٹھیں اور مصلے پر پہنچیں اور سر بسجود ہو کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اے خدا تیرا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کی زوجیت کے لائق ہوں تو مجھ ان کی زوجیت میں دے دے۔ اسی وقت ان کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔
فلما قضٰی زید منھا وطرا زوجنٰکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھن وطرا ط وکان امر اللہ مفعولا
پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دیدی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں کی بی بیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے ،اور اللہ کا حکم ہو کر رہنا ۔
آپ پر آثار وحی ظاہر ہوئے چند لمحے بعد مسکراتے ہوئے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس جائے اور انھیں بشارت دے کہ حق تعالی نے ان کو میری زوجیت میں دے دیا ہے۔ اور یہ نازل شدہ آیت تلاوت فرمائی۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خادمہ حضرت سلمی رضی اللہ تعالٰی عنھا دوڑیں اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بشارت دی۔ اور اس خوشخبری سنانے پر اپنے زیوارات اتار کر حضرت سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو عطا کردے۔ اور سجدہ شکر بجا لائیں اور دو ماہ روزہ سے رہنے کی نذرمانی۔
انفاق فی سبیل اللہ !
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں،میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا سے زیادہ کسی عورت کو بہت زیادہ نیک اعمال کرنے والی، زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی رحمی رشتہ داروں کو زیادہ ملانے والی اور اپنے نفس کو ہر عبادت و تقریب کے کام میں مشغول رکھنے والی نہ دیکھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحت کے ساتھ مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا ، تم میں سے جس کے ہاتھ دراز ہیں وہ مجھ سے ملنے میں تم سب سے پہلے سبقت کرنے والی ہے ، اس کے بعد ازواج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھوں کو بانسوں کے ٹکڑے سے ناپنا شروع کردیا تاکہ جانیں کہ کس کے ہاتھ دراز ہیں ۔
انھوں نے جانا کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کے ہاتھ زیادہ دراز ہیں ۔ جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد سیدہ دار فانی سے رخصت ہوئیں تو انھیں معلوم ہوا کہ درازی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی ۔ اس لئے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے ہاتھ سے دستکاری کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں ۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا سے مروی ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے مجھے چند فضیلتیں ایسی حاصل ہیں جو کسی اور زوجہ میں نہیں ایک یہ ہے ،میرے جد اور تمھارے جد ایک ہیں دوسرے میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرے یہ کہ اس قصہ میں جبریل علیہ السلام سفیر و گواہ تھے ۔
ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا سے گیارہ حدیثیں مروی ہیں ۔ دو متفق علیہ یعنی بخاری ومسلم میں ہیں اور باقی نو دیگر کتابوں میں ہیں ۔
وصال !
ان کے وصال کی خبر جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو پہنچی تو فرمایا !
پسندیدہ خصلت والی ، فائدہ پہنچانے والی یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری کرنے والی دنیا سے چلی گئی آپ کی جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ آپ کا وصال تریپن سال کی عمر میں 20ھ یا 12ھ مدینہ شریف میں ہوا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
8۔ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بن الحارث
ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام برہ بنت الحارث بن ابی ضرار تھا۔ حضور اکرم نے آپ کا نام تبدیل کرکے جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا رکھ دیا تھا ۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰٰٰی عنہ فرماتے ہیں ،کہ گویا حضور اکرم کو اس نام کو مکروہ جانتے تھے جیسے کوئی یہ کہے کہ برہ کے پاس سے نکل آئے برہ کے معنٰی نیکی و احسان کے ہیں ۔
نکاح مع سید المرسلین :-
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بڑی شیریں ،ملیح اور صاحب حسن وجمال عورت تھیں ،جو کوئی اسے دیکھتا فریضۃ ہو جاتا تھا۔جنگ اور تقسیم غنا یم کے بعد حضور اکرم ایک سمندر کے کنارے میرے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک جویریہ نمودار ہوئیں مجھ پر آتش غیرت نے غلبہ کیا کہیں ایسا نہ ہو حضور اکرم ان کی طرف توجہ خاص مبذول فرمائیں اور اپنے حبالہ عقد میں لے آئیں ۔ جب جویریہ آئیں ۔ تو انھوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ یا رسول اللہ میں مسلمان ہو کر حاضر ہوئی ہوں ۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسولہ
اور میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں جو اس قبیلہ کا سردار اور پیشوا تھا ۔ اب لشکر اسلام کے ہاتھوں میں قید ہوں ۔ اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آگئی ہوں ۔اور اس نے مجھے اتنے مال پر مکاتب (یعنی آقا کو مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرنا بنایا ہے میں اسے ادا نہیں کر سکتی میں امیّد رکھتی ہوں کہ میری اعانت فرمائی جائے تاکہ کتابت کی رقم ادا کر سکوں ۔ فرمایا : میں ادا کردونگا اور اس سے بھی بہتر تمھارے ساتھ سلوک کروں گا۔
انھوں نے کہا اس سے بہتر کیا ہوگا ۔
فرمایا کتابت کی رقم ادا کرکے تمھیں حبالہ عقد میں لاکر زوجیت کا شرف بخشوں گا۔ اس کے بعد کسی کو ثابت بن قیس کے پاس بھیجا کہ وہ کتابت کی رقم ادا کرے اس کے بعد ان کو آزاد کرکے حبالہ عقد میں لے آئے اور چار سو درہم مہر کا مقرر فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا مہر بنی المصطلق کے قیدیوں کی آزادی کو بنایا۔
قیدیوں کی رہائی !!
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے جب جانا کہ آپ سید کائنات کی زوجیت میں آچکی ہیں تو باہم کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ حضور اکرم کے حرم کے اقربا کو قید و غلامی میں رکھیں ،اس کے بعد سب کو آزاد کردیا ،جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ ازواج مطہرات میں سیدہ جویریہ سے زیادہ خیر و برکت والی کوئی اور حرم ہو۔
سیدہ کا خواب !!
ام المؤمنین سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے چاند چلتا ہوا میری آغوش میں اتر آیا ، یہ خواب کسی سے بھی بیان نہ کیا جب میں خواب سے بیدار ہوئی تو اس کی خود ہی کر لی جو الحمد اللہ ہوری ہوئی۔
دو اونٹ !!
حضرت سیدہ جویریہ کے والد حارث بن ابی ضرار کو یہ معلوم نہ تھا سیدہ آپ کے نکاح میں آچکی ہیں وہ بہت سا مال اونٹوں پر لاد کر اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہوئے ۔مقام عقیق پر پہنچ کر اونٹوں کو چرانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ دو پسندیدہ اونٹوں کو گھاٹی میں چھپا کر مدینہ طیبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا ۔
میری بیٹی کا فدیہ لے کر اسے رہا کردیں ،اور سارا مال و اسباب و اونٹ وغیرہ سرکار عالی وقار میں پیش کرنے لگے !
تو حضور اکرم نے فرمایا ۔ حارث ! وہ دو اونٹ کہاں ہیں جن کو تم عقیق کی گھاٹیوں میں چھپا آئے ہو۔
حارث پر اس غیب کی بات بتانے کا اتنا اثر ہوا کہ وہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا ،جب اسے معلوم ہوا کہ میری بیٹی امہات المؤمنین میں سے ہے تو وہ بہت خوش ہوا اور بڑی خوشی سے اپنی بیٹی سے مل کر ہشاش بشاش اپنی قوم کے گھر روانہ ہوا۔
کتب معتبرہ میں سیدہ جویریہ سے سات حدیثیں مروی ہیں ۔ بخاری میں دو ،مسلم میں دو اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں ۔
وصال !
ام المؤمنین سیدہ جویریہ کا وصال پینسٹھ سال کی عمر میں 50ھ یا 56ھ میں مدینہ طیبہ میں ہوا ، ان کی نماز جنازہ مروان نے جو امیر معاویہ کی جانب سے حاکم تھا پڑھی۔
9۔ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
سلسلہ نسب ۔
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف ، ان کا نام رملہ یا بقول دیگر ہند تھا ، ان کی والدہ صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبد الشمس تھیں ۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا اوائل اسلام میں ایمان لے آئیں اور حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی ، آپ پہلے عبید اللہ بن جحش کی زوجیت میں تھیں ،جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی ،جس کا نام حبیبہ تھا ، اسی سے آپکی کنیت ام حبیبہ ہوئی ۔
عبید اللہ بعد میں اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہو کر مرا ۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کا خواب !!!
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ خواب میں ایک شخص مجھے ام المؤمنین کہہ کر مخاطب کر رہا ہے ، میں نے خواب کی تعبیر یہ لی کہ رسول اللہ مجھے نکاح میں لائیں گے ۔
نکاح مع سید المرسلین :-
حضور تاجدار مدینہ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمیری کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ ام حبیبہ کو حضور اکرم کے لئے پیام دیں اور نکاح کریں ، پھر سیدہ ام حبیبہ نے حضرت خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا، نجاشی نے خطبہ پڑھا ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور وہ تمام مسلمان جو حبشہ میں موجود تھے شریک محفل ہوئے ،پھر نجاشی نے حضرت خالد بن سعید کو دینار سپرد کئے آپ جب روانہ ہونے کے لئےتیار ہوئے تو نجاشی نےکہا بیٹھ جاؤ کہ مجلس نکاح میں کھانا کھلانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے ، سب نے کھانا کھایا پھر رخصت ہوگئے ۔
مروی ہے کہ نجاشی نے وکیل کا تعین اور عقد نکاح کے سلسلے میں اپنی باندی ابرہہ کو حضرت ام حبیبہ کے پاس بھیجا ، آپ نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور اپنا زیب تن اتار کر باندی کے حوالے کردیا ،اور حضرت خالد بن سعید کو اپنا وکیل بنایا،نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب اور تمام مسلمانوں کو مدعو فرما کر ان کی خاطر و مدارات فرمائی نیز ام حبیبہ کا مہر چار سو مثقال سونا یا چار ہزار درہم مقرر کیا ۔
اور ام حبیبہ کے پاس بھیجا تاکہ اپنی تیاری اور ضروریات پر صرف فرمائیں ، سیدہ ام حبیبہ نے عذر خواہی کا اظہار کرتے ہوئے ابرہہ باندی کو مزید پچاس مثقال سونا عطافرمایا تاکہ اس خوشخبری کا شایان شان اظہار ہوسکے ، نجاشی نے یہ تمام سونا اور تمام زیورات دوبارہ سیدہ ام حبیبہ کی خدمت میں پیش کر دئیے اور کہلوایا،
آپ ان چیزوں کی زیادہ حق دار ہیں کیونکہ اپنے شوہر کے پاس جارہی ہے ،پھر عرض کیا کہ بارگاہ رسالت میں میرا سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ میں آپ کے صحابہ کے دین پرہوں اور ہمیشہ درودوسلام بھیجتا رہتا ہوں ،نیز نجاشی کی عورتوں نے ام حبیبہ کے لئے عطر و خوشبویات بھیجیں ، حضور اکرم نے حضرت شرجیل بن حسنہ کو بھیجا کہ سیدہ ام حبیبہ کو مدینہ طیبہ میں لائیں ، مدینہ طیبہ پہنچنے پر حضور اکرم نے ان سے زفاف فرمایا ، اور جب انھوں نے نجاشی کا سلام پیش کیا تو حضور اکرم نے فرمایا:
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدہ کا ادب !
صلح حدیبیہ کے دوران ابو سفیان مدینہ منورہ آیا، سیدہ ام حبیبہ کے گھر پہنچ کر چاہا کہ سرکار دو عالم کے بستر پر بیٹھے سیدہ نے اپنے باپ کو بستر پر بیٹھنے سے منع کردیا اور فرمایا یہ بستر طاہر و مطہر ہے اور تم نجاست شرک سے آلودہ ہو۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب معتبرہ میں پینسٹھ احادیث مروی ہیں ان میں سے دو متفق علیہ ہیں ایک تنھا مسلم میں ہے باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں ۔
وصال
سیدہ ام حبیبہ پاکیزہ ذات ، حمیدہ صفات ،جواد اور عالی ہمت تھیں ۔ قرب وصال سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ سے کہا کہ مجھے ان امور میں معاف کردو جو ایک شوہر کی بیبیوں کے درمیان ہوجاتے ہیں اور اس نوع سے جو کچھ میری جانب سے تمھارے متعلق واقع ہوا ہو اسے معاف کردو ، انھوں نے کہا حق تعالٰی تمھارے بوجھ کو بخشے اور معاف کرے ہم بھی معاف کرتے ہیں ، ام المؤمنین ام حبیبہ نے کہا اللہ تعالٰی تمھیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ کا وصال مدینہ طیبہ میں 40ھ یا 44ھ میں ہوا۔ ایک قول کے مطابق آپ کا وصال شام میں ہوا۔
10۔ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حّی بن الخطیب رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت حّی بن الخطیب بنی اسرائیل سے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ۔
نکاح مع سید المرسلین صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حّی رضی اللہ تعالٰٰی عنھا خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں ۔ حضور تاجدار مدینہ نے ان کو اپنے لئے منتخب کرلیا ۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ وحید کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصہ میں آئیں لوگوں نے کہا ! وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، حسینہ جمیلہ ہونے کے علاوہ قبیلہ کے سردار کی بیٹی بھی ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ وہ حضور اکرم کے ساتھ مخصوص کی جائیں ۔ مروی ہےکہ حضور اکرم نے حضرت وحید کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا ان قیدیوں باندیوں میں سے کوئی اور لے لو ۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت وحید کو سیدہ صفیہ کے چچا کی لڑکی ان کے بدلے میں مرحمت فرمائی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت وحیہ سے سیدہ صفیہ کو سات باندیوں کے بدلہ خریدا، پھر حضور اکرم نے انھیں آزاد فرمادیا اور نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر بنایا ۔
سیدہ صفیہ کا خواب !
سیدہ صفیہ نے خواب میں دیکھا کہ چودھویں رات کا چاند ان کی آغوش میں آگیا ہے ،جسے اپنے پہلے شوہر کنانہ سے بیان کیا ، اس نے کہا کہ تو اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ اس بادشاہ کی بیوی بنے اور ایک طمانچہ حضرت صفیہ کو مارا جس سے آپ کی آنکھ نیلی پڑ گئی ،شب زفاف میں اس طمانچہ کا اثر ظاہر تھا ،سرور دو عالم کے استفسار پر آپ نے ساری حقیقت حال بیان کردی ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ کا ادب !
غزوہ خیبر کی واپسی پر حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سواری پر رکھے تاکہ سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے قدموں کو حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہوجائیں ،سیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قدم کی بجائے اپنے زانو کو حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہو گئیں ، حضور اکرم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنا ردیف بنایا اور پردہ باندھا۔
حضور اکرم سیدہ صفیہ کی باری کے دن ان کے پاس تشریف لائے ، سیدہ صفیہ کو روتے پا کر سبب گریہ وزاری پوچھا عرض کیا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا آکر مجھے ایذاء دیتیں ہیں ۔ کہتیں ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں کیونکہ ہمیں نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نسب مبارک کی شرافت حاصل ہے ،حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے کیوں نہیں کہا کہ تم کیوں کر مجھ سے بہتر ہو ،حالانکہ میرے باپ ہارون علیہ السلام ہیں اور میرے چچا موسٰی علیہ السلام ہیں ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب احادیث معتبرہ میں دس حدیثیں مروی ہیں ،ایک متفق علیہ اور باقی نو دیگرکتابوں میں ہیں ۔
وصال
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال مختلف اقوال کے مطابق 36ھ یا 52ھ یا 55ھ میں ہوا ،یہ قول بھی ہے کہ خلافت فاروقی میں آپ کا وصال ہوا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
11۔ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ۔
ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت الحارث کا نام برہ تھا ، حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل کر کے میمونہ رکھا ۔
آپ کی والدہ کا نام ہند بنت عوف ہے جو ایسے داماد رکھتی تھیں جو کسی اور کو میسّر نہیں ، ایک داماد حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تھے ، دوسرےداماد حضرت عباس رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بہن ام الفضل رضی اللہ تعالٰی عنھا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ، ہند بنت عوف کی پہلے شوہر عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہ خشعمی سے دو صاحبزادیاں تھیں ۔ ایک اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا جو پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ، حضرت جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نکاح میں آئیں ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں آئیں ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالٰی عنھا کی دوسری بہن حضرت زینب بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنھا ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ۔
نکاح مع سید المرسلین
ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح آپ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ماہ ذیقعدہ 7ھ میں عمرہ القضاء میں ہوا ۔
حضرت سہیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انھیں نکاح کا پیام ملا وہ اونٹ پر سوار تھیں ۔ مسرت کے باعث اونٹ سے نیچے آ پڑیں اور کہا اونٹ اور سازوسامان سبھی کچھ رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے ۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح ،زفاف اور وصال ایک ہی مقام پر واقع ہوا جسے سرف کہتے ہیں اور یہ مکہ مکرمہ سے دو میل کے فاصلہ پر ہے ۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے چھتّر حدیثیں مروی ہیں ، سات متفق علیہ ایک صرف بخاری و مسلم میں ہے باقی دیگر کتابوں میں ہیں۔
وصال !
سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال مشہور تر قول کے مطابق 51ھ ہے اور باقول مختلفہ 61ھ 62ھ یا 63ھ بھی بتایا گیا ہے ، بقول بعضے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال 38ھ میں امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنھا کے دور خلافت میں ہوا ۔ اور آپ آخری زوجہ مطہرہ ہیں ان کے بعد حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کسی سے نکاح نہ فرمایا ، آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھانجے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی اور دیگر بھانجوں نے ان کو قبر میں اتارا۔
(( ماخوذ از ))
1، مشکواۃ شریف
2، مدارج النبوۃ
3، نزہت المجالس