Friday, December 4, 2009

بحث تقلید حصہ دوم

الحمد للہ ربّ ِ العالمین خَالِقِ السَّمٰوتِ وَالارضِینَ والصّلٰوۃ والسّلام علٰی مَن کَانَ نبیّا وّ اٰدَمُ بینَ الماءِ و َ الطِّین اَجملِ الا جمَلین اَ کمل الا کملینَ سیّدنا محمد وّ اٰلہ و اصحابہ و اھلِ بیتہ اجمعین

بحث تقلید حصہ دوم

مسئلہ تقلید پر مخالفین دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ایک واہیات طعنے جن کا جواب دینا ضروری نہیں۔ دوسرے وہ جن سے غیر مقلدین بھولے بھالے مقلدبھائیوں کو دھوکا دیتے ہیں یہ حسب ِ ذیل ہیں۔

اعتراض: اگر تقلید ضروری تھی تو صحابہ کرام کس کے مقلد تھے؟ جب وہ کسی کے مقلد نہیں تھے ہم بھی کسی کے نہیں۔

جواب: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کسی کی تقلید کی ضرورت نہ تھی۔ جیسا کہ بحثِ تقلید حصہ اول میں بیان گزرا کہ مکلّف مسلمان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مجتہد(مقلَّد)۔دوسرا غیر مجتہد(مقلِّد)۔مجتہد وہ ہے جس میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہو کہ قرآنی اشارات و رموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصدکو پہچان سکےاس سے مسائل نکال سکے۔ ناسخ و منسوخ کا پورا علم جانتا ہو ۔ علمِ صرف و نحو و بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو۔ احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو۔اس کے علاوہ ذکی اور خوش فہم ہو (تفسیراتِ احمدیہ)۔

اب آپ ہی بتائیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جس قرآن کی آیتوں سے مسئلے استنباط کریں اس قرآن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حافظ تھے یا نہیں اور امام اعظم رحمۃاللہ علیہ جن احادیث سے مسئلے استنباط کرتے ہیں کیا وہ احادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو نہیں آتی تھیں تو جن آیات و احادیث پر امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کو اتنا کمال حاصل تھا اور وہ ناسخ و منسوخ کا علم جانتے تھے بلاغت کا علم جانتے تھے اور قرآنی اشارات و رموز کو سمجھتے تھے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ علم نہیں جانتے تھے صحابہ کرام تو ہر وقت صاحب قرآن ﷺ کہ خدمت میں رہتے تھے اور احادیث صحابہ کرام سے ہو کر ہی تو امام اعظم تک پہنچی تھیں امام شا فعی و امام مالک و امام حنبل رحمھم اللہ تعالٰی تک پہنچیں تھیں تو اب آپ فیصلہ کریں کہ صحابہ کرام مجتہد ہوئے کہ نہیں ۔ بالیقین تمام صحابہ کرام مجتہد تھے اور مجتہد پر تقلید واجب نہیں ہوتی ۔ کما مرّفی بحث تقلید حصہ اول

اور ہمارے چاروں ائمہ مجتہدین صحابہ ہی کی پیروی کرتے ہیں مشکٰوۃ باب فضائل صحابہ میں ہے

اصحابی کالنجوم اقتدیتم اھتدیتم میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان کی پیروی کرو ہدایت پا لو گے۔

علیکم بسنّتی و سنّۃ الخلفاءِ الراشدین۔ تم میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔

اب اعتراض والے کو سمجھ آ جانا چاہئے کو صحابہ کسی کے مقلد نہیں تھے کیوں کے وہ خود مجتہد تھے اور ہم مقلد اس لیے ہیں کے ہم مجتہد نہیں۔

اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نہر سے پانی اُسی کھیت کو دیا جاتا ہے جو دریا سے دور ہو مکبّرین کی آواز پر وہی نماز پڑھے گا جو امام سے دور ہو گا۔ جو کھیت دریا کے کنارے پر ہو اسے نہر کے پانی کی ضرورت نہیں اور جو صف اول میں ہو اسے مکبّر کی ضرورت نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی صف اول کے مقتدی ہیں۔ وہ بلا واسطہ حضور نبئ اکرم ﷺ سے فیض لینے والے ہیں ہم اس بحر رحمت سے دور ہیں لہٰذا ہم نہر کے حاجتمند ہیں ۔ اور ایک سمندر سے بے شمار نہریں جاری ہوتی ہیں آپﷺ کے سینہ انور میں موجزن سمندر ِعلم سے بھی بے شمار نہریں نکلی ہیں اور ہم اس نہر علم سے وابسطہ ہیں جو امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے سینے سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی اس لیے ہم حنفی کہلاتے ہیں اسی طرح جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ سے ہو کر آئی اس نہر سے وابسطہ شافعی کہلائے۔ و علی ھذا القیاس۔پانی سب کا ایک ہی ہے مگر نام جدا جدا اور ان نہروں کی ہمیں ضرورت پڑی نہ کہ صحابہ کرام کو جیسا کہ حدیث کی سند ہمارے لیے ہے صحابہ کے لیے نہیں۔

اعتراض: رہبری کیلئے قرآن و حدیث ہی کافی ہے ان میں کیا نہیں جو فقہ سے حاصل کریں کیوں کے قرآن میں ارشاد ہے کہ :

نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز جو اس روشن کتاب میں ہم نے لکھی نہ ہو" تو مجتہد کے پاس کیا لینے جائیں۔

جواب: قرآن و حدیث بے شک رہبری کیلئے کافی ہیں اور ان میں سب کچھ ہے۔ مگر ان سے مسائل نکالنے کی قابلیت ہوناچاہئے اور وہ قابلیت کیا ہے وہ پہلے اعتراض کے جواب میں تفسیرات احمدیہ کے حوالے سے گزر چکی اور جس میں یہ قابلیت ہو وہی مجتہد ہوتا ہے۔ اگر قابلیت نہ ہو گی تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے اور قرآن نے یہ بھی تو فرما دیا ہے نا

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّیَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ سورۃ البقرۃ ، آیت۲۶

ترجمہ: اللّٰہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے

اس کی تفسیر ہے کہ اس مثل سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے جن کی عقلوں پر جَہل نے غلبہ کیا ہے اور جن کی عادت مکابرہ و عناد ہے اور جو امرِ حق اور کھلی حکمت کے انکار و مخالفت کے خوگر ہیں اور باوجود یکہ یہ مثل نہایت ہی برمَحل ہے پھر بھی انکار کرتے ہیں اور اس سے اللّٰہ تعالٰی بہتوں کو ہدایت فرماتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے وہ جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیمُ المرتبہ چیز کی تمثیل کسی قدر والی چیز سے اور حقیر چیز کی ادنٰی شے سے دی جائے ۔ بحوالہ تفسیر خزائن العرفان

قرآن پاک ایک ایسا سمندر ہے کہ اس میں غوطہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ جس طرح سمندر سے موتی نکالنے کیلئے ماہر غوطہ خور کی ضرورت ہوتی ہے اسطرح اس قرآن پاک کے علمی سمندر سے مسئلوں کے موتی چننے کیلئے بھی ماہر مجتہد کی ضرورت ہوتی ہے اور طب کی کتابوں میں سب کچھ لکھا ہوتا ہے مگر نسخہ بنوانے کیلئے طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں کیونکہ وہ ماہر ہوتا ہے اسی طرح قرآن پاک فصیح و بلیغ ہے ہر کسی کی سمجھ میں نہیں ا ٓتا۔اور قرآن و احادیث روحانی دوائیں ہیں اور امام روحانی طبیب

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ پر افتراء کا جواب

بعض لوگ امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں یہ افتراء باندھتے ہیں کہ ان کو تو حدیث آتی ہی نہیں تھی اور ان سے تو صرف سات احادیث مروی ہیں اور ان کے قول احادیث کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ جو حدیث صحیح ثابت ہو جائے وہ ہی میرا مذہب ہے لہٰذہ ہم نے ان کے قول حدیث کے خلاف پا کر چھوڑ دئیے

افتراء کا جواب

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث تھے ۔ بغیر حدیث دانی اس قدر مسائل کیسے استنباط ہو سکتے ہیں ان کی کتاب مسند امام ابو حنیفہ اور امام محمد کی کتاب مؤطا امام محمد سے ان کی حدیث دانی معلوم ہوتی ہے ۔ اب اعتراض کرنے والے سے یہ پوچھا جائے کے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایات بہت کم ملتی ہیں تو کیا وہ محدث نہ تھے ۔کمی روایات احتیاط کی وجہ سے ہے امام اعظم کی تمام روایات صحیح ہیں کیونکہ ان کا زمانہ حضور نبئ کریمﷺ سے بہت قریب ہے اورامام اعظم تابعی ہیں آپ کی ملاقات ۷ صحابہ کرام سے ہوئی ہے۔ بعد میں روایات میں ضعف آیا ہے جب زمانہ حضور نبئ کریمﷺ سے دور ہوا اسناد بڑھتی گئیں اور ضعف پیدا ہوا اور بعد کا ضعف امام اعظم کو مضر نہیں ۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ صحیح مسلم شریف باب فضائل صحابہ میں ہے

عن عمران بن حصین انَّ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ اَنَّ خیرکم قرنی ثمَّ الّذین یلونھم ثمّ الذین یلونھم قال عمرانُ فلا اَدری أ قال رسولُ اللہِ ﷺ بعدَ قرنہ مرَّتینِ او ثلاثۃ

ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک تم میں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اُسکے بعد والا جو اس سے ملا ہوا ہے پھر اسکے بعد والا جو اس سے ملا ہوا ہے اس کہ بعد راوی فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔

اب اس حدیث میں اگر کم از کم عدد بھی لیا جائے تب بھی تین زمانے بنتے ہیں ایک حضور ﷺ کا ایک اس کے بعد یعنی صحابہ کا اور ایک اس کے بعد یعنی تابعین کا ۔اور امام اعظم رضی اللہ عنہ تابعی ہیں اب آپ ہی بتائیں کے جب حضورﷺ نے تابعین کے زمانے کو بھی اچھا قرار دیا تو آج کے ان پڑھ مولوی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان پر اعتراض کرےان پر اعتراض آقا ﷺ کی حدیث پر اعتراض ہے کیونکہ آقا ﷺ نے تابعین کے زمانے کو بھی خیرالقرون میں ذکر فرمایا ہے

اللہ ہم سب کو استقامت فی الدّین ، بے ہدایتوں کو ہدایت اور بد مذہبوں اور گستاخوں سے پناہ میں رکھے آمین

دعاؤں کا طالب

فقیر اہلسنّت ابوالغوث عطاری غفرلہ الباری


No comments:

Post a Comment

حق آن لائن کے وزٹرز