1۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبرٰٰی رضی اللہ عنھا
2۔ ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا
3۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا
4۔ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا
5۔ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا
6۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا
7۔ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا
8۔ ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنھا
9۔ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا
10۔ ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حی بن الخطیب رضی اللہ عنھا
11۔ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنھا
1۔ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالٰی عنھا:-
نسب شریف !
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت خویلد بن اسد عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف سے قصٰی میں مل جاتا ہے ۔
کنیت:-
سیدہ رضی اللہ عنھا کی کنیت ام ھند ہے ۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت زاہدہ بن الاصم بن عامر بن لوی سے تھیں۔
اللہ تعالٰی کا سلام۔
صحیحین میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کیا اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا دستر خواں لا رہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔
افضل ترین جنتی عورت!
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنھا ، سیدہ فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مریم بنت عمران اور آسیہ امرۃ فرعون رضی اللہ تعالٰی عنھن ہیں ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی تجارت میں دونا نفع !
سردار مکہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہا نے اپنے کاروبار کیلئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا مال تجارت لیکر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشکش کو بمشورہ ابو طالب قبول فرمالیا ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کر کے دونا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپکی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا ، جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کناں ہیں نیز دوران سفر کے خوارق وکرامات کے واقعات نے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو آپ کا گرویدہ کر دیا ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح !
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخدل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں ۔ بکثرت قریشی آپ سے نکاح کرنے پر آمادہ تھے ، لیکن آپ نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا ۔ سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچا ابو طالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اور دیگر روساء کے ساتھ سیدہ خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ تعالٰی عنھا کے مکان پر تشریف لائے ، جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے ) بوقت نکاح سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ جب تک آپ حیات رہی آپ کی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔
غم گسار بیوی !
غار حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وحی لیکر حاضر ہوئے اور عرض کیا ! پڑھیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ما انا بقاری میں پڑھنے والا نہیں یعنی کسی سے میں نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لیا اور پوری طاقت صرف کی جتنی کے میری اس کے ساتھ تھی ، پھر جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم کو چھوڑ کر دوبارہ کہا پڑھیے ، میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے پھر آغوش میں لیکر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھیے ،میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لیا اور بھینچا اور کہا ۔
اِقرَا باسمِ ربّکَ الّذی خَلَقَ
خَلقَ الانسانَ من عَلقٍَ
اقراء وربُّک الاکرَمُ
آٌلذین علّم بالقَلمِ
علّم الاِنسانَ مَا لَم یَعلَم
ترجمہ :- پڑھو اپنے رب عزوجل کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ، پڑھو اور تمھارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔
اس پر مژدہ واقعہ سے آپکی طبیعت بے حد متاثر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا : زملوانی زملوانی ، مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو ۔ پھر آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ عنھا سے سارا حال بیان فرمایا ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالٰٰی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گا ۔ کیونکہ آپ صلہ رحمی فرماتے ، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ، لوگوں کی سچائی میں ان کی مدد اور ان کی برائی سے خذر فرماتے ہیں ، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں، سچ بولتے ہیں ، اور امانتیں ادا فرماتے ہیں ۔ سیدہ نے ان باتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا اور آپ خوش ہو جاتے تھے اور جب سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ۔
سابق الایمان :-
مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں ۔ کیونکہ جب سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں ۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدناحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ، بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ، اس وقت آپ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ، عورتوں میں سیدنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور موالی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ ( بحوالہ مدارج النبوۃ )
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی فراخدلی :-
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے نکاح کے بعد حاسدین نے جناب سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بارگاہ عالیہ میں نازیبا کلمات کی بوچھاڑ کر دی ۔ کہنے لگے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے مالدار ہونے کے باوجود والئی بیکساں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کر لیا ۔
ان کلمات نے سیدہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو بے چین کر دیا ۔ آپ نے تمام رؤسا کو بلا کر گواہ کیا کہ میں نے اپنا تمام مال مالک کونین صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کر دیا ہے اب اگر مفلس ہوں تو میں ہوں اور یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہو گا اگر وہ میری مفلسی پو راضی ہو جائیں حاضرین مجلس بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بہت ہی مال والے ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا اب مفلس ہو گئیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے جب یہ بات سنی تو آپ کو بہت بھلی معلوم ہوئی اور اس عار کو اپنے لئے فخر سمجھا ۔ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی اس فراخدلی پر بہت خوش ہوئے اور دل میں سوچا کی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی اس فراخدلی کا کیا صلہ دوں ۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئے اور عرض کیا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے اس جذبہ کا صلہ ہمارے ذمہ ہے ۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کی خدیجہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جبکہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انھوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مدد کی جبکہ لوگوں نے مجھے محروم کو رکھا تھا۔
اولاد کرام :-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے پیدا ہوئے فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جبکہ دختران میں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنھن ہیں ۔
وصال :-
آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا تقریباً پچیس سال حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ، آپ کا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوا ، اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی ۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔
ذکر خیر :-
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی سہیلیاں تھیں :-
2۔ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
نسب شریف :-
ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا قیس بن عبد شمس بن عبدود ، قرشیہ عامریہ ہیں ۔ ان کا نسب افضل الانبیاء و المر سلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے لوی میں مل جاتا ہے ۔
ان کی کنیت ام الاسود ہے ۔
ہجرت حبشہ :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ابتدا ہی میں مکہ مکرمہ میں ایمان لائیں ان کے شوہر حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عمرو بن عبد الشمس بھی ان کے ساتھ اسلام لائے جن سے عبد الرحمٰن نامی لڑکا پیدا ہوا ۔ سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے حضرت سکران رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی ۔ ان کے شوہر مکہ مکرمہ بروایت دیگر حبشہ میں فوت ہوئے ۔
سیدہ کا خواب :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جب مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں ملا حظہ فرمایا کہ قدم مبارک ان کی گردن پر رکھا ہوا ہے ۔ اپنا یہ خواب حضرت سکران رضی اللہ عنہ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر خواب بعینہ ایساہی ہے جیسا کہ تم بیان کر رہی ہو تو میں بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا اور پیارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں چاہیں گے ۔ پھر کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ تعالٰی عنہ وصال فرما گئے ۔
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم :-
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے وصال کے بعد پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرصہ تک مغموم رہے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عقد ثانی کے لئے عرض کیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہاں ؟
خولہ نے عرض کیا آپ کے لئے کنواری بھی موجود ہے اور بیوہ بھی ۔ سرکار صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر خولہ نے عرض کیا کہ کنواری تو اس شخص کی بیٹی ہے جو ساری مخلوق میں آپ کو پیارا ہے یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ۔ اور بیوہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جو کہ آپ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لا چکی ہیں ۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دونوں سے کہو ۔ حضرت خولہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف لائیں اور ام رومان والدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مدعّا عرض کیا تو دونوں راضی ہو گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے آپ کا عقد ہو گیا ۔
بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے وصال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور بعض کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ثانی ہوا ۔
حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے پانچ حدیثیں مروی ہیں ایک بخاری میں اور باقی چار سنن اربعہ میں مروی ہیں ۔
وصال :-
سیدہ سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال ماہ شوال 54ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور مبارک میں ہوا ۔ بموجب روایت دیگر دور خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوا -
3۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا :
سلسلہ نسب :-
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابی قحافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن مرہ بن کعب بن لوی ۔
کنیت ام عبد اللہ :-
آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی کنیت ام عبد اللہ ہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے کنیت مقرّر کرنے کی درخواست کی چنانچہ آپ صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اپنے بھانجے ( یعنی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ ) سے اپنی کنیت رکھ لو ۔
ایک اور روایت میں آٰیا ہے ۔ آپ جب اپنی بہن کے نوائیدا فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰٰی عنھما کو بارگاہ رسالت میں لے کر حاضر ہوئیں تو نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے منہ میں لعاب دھن ڈال کر فرمایا یہ عبد اللہ ہے اور تم اُم عبد اللہ ۔
خواب میں سیدہ کی تصویر :-
ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا فرماتی ہیں کہ رحمت عالمین صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تین رات مسلسل مجھے ایک ریشمی کپڑے پر تمھاری تصویر دکھائی جاتی رہی جسے جبریل علیہ السلام لے کر آتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ہے آپ کی بیوی -
اے عائشہ ! آج جو میں نے تمھارے چہرہ سے کپڑا اٹھایا تو تم اسی تصویر کے مطابق ہو ۔ فرشتہ جب تمھاری تصویر لے کر آتا رہا تو میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ تعالٰٰی کی طرف سے ہے اس لئے یہ رشتہ ہو کر رہے گا ۔
دوسری روایت میں یہ لفظ بھی ہیں ۔ یہ تمھاری بیوی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں جنت میں سرکار ابد قرار صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہوں تو میں ہر قسم کے غم سے بے نیاز ہو گئی ۔
سیدہ کا نکاح :-
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور پیغام سنایا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرما دیا ہے ان کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی ایک تصویر تھی ۔
آپ کا نکاح مدینہ طیبہ میں چھ سال کی عمر میں ماہ شوال میں ہوا اور ماہ شوال میں نو سال کی عمر میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نو سال تک رہیں ۔ جب سید عالم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ماہ شوال میں شادی کی تقریب زیادہ پسند کرتی تھیں اور فرماتی تھیں ۔ میرا نکاح بھی اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی اور مجھ سے زیادہ خوش قسمت شوہر کے نزدیک کوئی نہیں ۔
کسی زمانہ میں شوال میں طاعون کی وبا پھیلنے کے باعث لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے ۔ ان کے ان اوہام باطلہ کو دور فرمانے کے لئے رحمت اللعٰلمین صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینہ میں نکاح کرنا اور رخصت کرانے کا چاہا ۔
حبیبہ ء حبیب خدا :-
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے اعظم فضائل و مناقب میں سے ان کے لئے حضور تاجدار مدینہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بہت زیادہ محبت فرمانا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگا رہے تھے جبکہ میں چرخہ کاٹ رہی تھی ۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کو دیکھا کہ آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پسینہ سے آپ کے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف نگاہ کرم اٹھا کر فرمایا کس بات پر حیران ہو ؟ سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کے رخ روشن اور پسینہ جبین نے مجھے حیران کر دیا ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
کھڑے ہوئے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا اے عائشہ !!
اللہ تعالٰی تمھیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرور کر دیا ۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا ‘‘ اے فاطمہ ! جس سے میں محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو گی ؟
سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کیا ، ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں محبت رکھوں گی ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو عائشہ سے محبت رکھو ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بارے میں بد گوئی کرتے سنا تو حضرت عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ! او ذلیل و خوار خاموش رہ ، کیا تو اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبوبہ پر بد گوئی کرتا ہے ۔
حضرت مسروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذوق روایت !
حضرت مسروق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ اکابر تابعین میں سے ہیں جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے روایت کرتے ہیں تو فرمایا کرتے !
حدثنی الصدیقہ بنت الصدیق حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم ، مجھ سے حدیث بیان کی صدیقہ بیٹی صدیق کی محبوبہ رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے یا کبھی اس طرح حدیث بیان کرتے حبیبۃ حبیب اللہ امرائۃ من السماء اللہ کے حبیب کی محبوبہ آسمانی بیوی !!!
سیدہ کا نازو نیاز !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو محبوب کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرنے کی بہت قدرت تھی اور وہ جو چاہتیں بلا جھجک عرض کر دیتی تھیں اور یہ اس قرب و محبت کی وجہ سے تھی جو ان کے مابین تھی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں اپنی گڑیاں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی ۔ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے ۔ انھوں نے دریچہ کے پردہ کو اٹھایا اور گڑیاں حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دکھائیں ۔ حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ سب کیا ہیں ۔ میں نے عرض کیا یہ میری بیٹیاں ہیں یعنی یہ میری گڑیاں ہیں ۔ ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے ۔ فرمایا کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں !
میں عرض کیا شاید حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اتنا تبسم فرمایا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دندانہائے مبارک کشادہ ہو گئے ۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر حق تعالٰی کی رحمت اور اس کے فضل سے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم !
کیا آپ بھی جنت میں داخل نہ ہونگے مگر خدا کی رحمت سے !
فرمایا ‘‘ ہاں میں بھی داخل نہ ہوں گا مگر یہ کہ مجھے حق تعالٰی نے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دن حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بڑی فراخی سے باتیں کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدہ سے فرمایا بیٹی !
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ نیاز مندی اختیار کرو ۔
جب وہاں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہاں سے چلے آئے تو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ان کی رضا کے مطابق گفتگو کرنے کی اجازت عطا فرمائی ۔ اسی اثنا میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پھر آنا ہوا تو سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بہت خوش پایا تو آپ بھی بہت خوش ہوئے ۔
ایک دفعہ کسی بات پر طرفین کے درمیان شکر رنجی ہوئی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کو بلایا گیا ۔ انھوں نے حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے اتنی سی بات کو بھی نا پسند کیا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کو سختی سے ہدایت فرمانے لگے ۔
حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ جائیے یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے اور مسکرا دئیے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب کبھی تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو میں جان لیتا ہوں اور جب کبھی تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو بھی جان لیتا ہوں ۔ میں نے عرض کیا آپ کہاں سے پہنچانتے تھے فرمایا جب تم ہم سے خوش ہوتیں تو کہتی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب عزوجل کی قسم اور جب تم ہم سے خفا ہوتی تو کہتی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے رب کی قسم ۔
میں نے عرض کیا ہاں یا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی تھی ۔ مطلب یہ کہ اس حال میں صرف آپ کا نام نہیں لیتی لیکن آپ کی ذات گرامی اور آپ کی یاد میرے دل میں اور میری جان آپ کی محبت میں مستغرق ہے ۔
تفقہہ فی الدین :-
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فقہاء و علماء و فصحاء بلغاء اکابر صحابہ میں سے تھیں اور حدیثوں میں آیا ہے کہ تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیراء یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا سے حاصل کرو ۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو معانی قرآن احکام حلال و حرام ، اشعار عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے زیادہ عالم نہیں دیکھا ۔
حضرت ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث پاک سمجھنے اور کسی دوسرے مسئلہ کے سمجھنے میں گر کوئی مشکل پیش آتی تو ہم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے دریافت کرتے تو آپ اس مشکل کو حل فرمادیتیں کیونکہ آپ بڑی عالمہ تھیں ۔
ایمان افروز تدبیر :
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا بارش نہ ہونے پر لوگ پریشانی کے عالم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ام المؤمنین !
بارش نہ ہوئی قحط پڑ گیا ہے ۔ ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں ۔ فرمائیے کیا کیا جائے ۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے فرمایا !
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر جاؤ اور قبر انور کے حجرہ مبارکہ کی چھت سے چند جگہ سے مٹی نکال کر روشندان بناؤ تا کہ قبر شریف اور آسمان کے مابین کوئی پردہ نہ رہے اور آسمان قبر شریف کو نظر آنے لگے ۔
آسمان جب قبر انور کو دیکھے گا تو رونے لگے گا اور بارش ہونے لگے گی ۔
ام المؤمنین کی اس تدبیر پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے عمل کیا اور روضہ انور کی چھت میں کچھ روشندان بنائے تو آسمان کو قبر انور نظر تو بارش شروع ہو گئی اور اتنی بارش ہوئی کہ گھاس اگ آئی ۔ اونٹ موٹے ہو گئے اور ان میں اتنی چربی اور گوشت پیدا ہو گیا ۔ گویا وہ موٹاپے سے پھٹنے لگے
اس سال کا نام سال ارزانی رکھا گیا !
برکات آل ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ !
ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہو گیا ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نےاس منزل میں پراؤ ڈالا تاکہ ہار مل جائے نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس، نماز کا وقت فوت ہونے کے قریب لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کے پاس سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی شکایت لائے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس تشریف لائے ۔ دیکھا کہ راحت العاشقین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پر سختی کا اظہار کیا لیکن سیدہ نے اپنے آپ جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک خواب سے بیدار ہو جائیں ۔
چناچہ صبح ہوگئی اور نماز کے لئے پانی عدم دستیاب ۔
اس وقت اللہ عزوجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمّم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمّم کے ساتھ ادا کی ۔
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا !
ماھی باَوّل برکتکم یا اٰل ابی بکر
اے اولاد ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ تمھاری پہلی برکت نہیں ہے ۔
مطلب یہ کہ مسلمانوں کو تمھاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا گویا حکمت الہٰی عزوجل یہی تھی کہ مسلمانوں کے لئے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے ۔
ارفع شان !
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ بہ نسبت دیگر عورتوں کے مجھے چند امتیازی حیثیتیں حاصل ہیں ۔ شکم مادر میں میری تصویر بننے سے قبل حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو میری صورت دکھائی گئی ۔ مجھے حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سب سے زیادہ پیار عطا فرمایا اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں میری برات کا اعلان فرمایا ۔ نیز فرماتی ہیں حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں ہوا ۔ بوقت وصال آپ میرے سینہ اور گردن سے تکیہ لگائے ہوئے تھے اور سب سے بڑی نعمت جس سے اللہ تعالٰی نے مجھے نوازا وہ یہ کہ وصال کے وقت میرا لعاب دھن اور حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دھن جمع فرمادیا ۔ جب میرے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لائے انکے ہاتھ میں مسواک تھی ۔ تاجدار مدینہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے جسم سے تکیہ لگائے ہوئے تھے سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مسواک کی طرف دیکھا میں نے سمجھا کہ حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو مسواک پسند ہے لہٰذا میں عرض کیا ! کیا آپ کے لئے مسواک لوں ۔
حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سے ہاں کا اشارہ فرمایا !
میں نے مسواک لے کر حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دی ۔ حضور صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دھن مبارک میں ڈالا تو وہ سخت تھی میں نے عرض کی اسے نرم کر دوں ؟
فرمایا ، ہاں
میں نے مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اسے نرم کر کے حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دی ۔ اور آپ نے اپنے منہ میں ڈال لی ۔ اس طرح میرا لعاب اور لعاب سرور دو جہاں صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جمع ہو گئے۔
خلیفۃ المسلیمن رضی اللہ تعالٰی عنھم کے ایمان افروز اقوال !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی برات میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ۔ام المؤمنین پر افتراء کرنے والے منافق اور جھوٹے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم انور پر مکھی بیٹھنے سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ نجاست پر بیٹھتی ہے پھر آپ کو ایسے اتہام سے کیونکہ محفوظ نہ فرماتا ۔
سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالٰٰی نے آپ کے سائے کو زمین پر نہیں پڑنے دیا تا کہ کسی کا پاؤں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سایہ پر نہ پڑجائے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کیوں نہ فرماتا ۔
سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں آپ کے نعلین شریف کو جب آلودگی لگی تو حضرت جبریل علیہ السلام آکر مطلع فرمائیں اگر ایسی بات ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو الگ کرنے کا حکم بھی نازل ہو جاتا ۔
انفاق فی سبیل اللہ عزوجل !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ اگر تم چاہتی ہو کہ جنت میں میرے ساتھ رہو تو تمھیں چاہئے کہ دنیا میں اس طرح رہو جس طرح کہ راہ چلتا مسافر ہوتا ہے کہ وہ کسی کپڑے کو پرانا نہیں سمجھتا جب تک وہ پیوند کے قابل ہے اور وہ اس میں پیوند لگاتا ہے ۔
مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا !
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ حق تعالٰی مجھے جنت میں آپ کی ازواج مطہرات میں رکھے ۔
سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس رتبہ کی تمنا کرتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچا کے نہ رکھو ۔ اور کسی کپڑے کو جب تک اس میں پیوند لگ سکتا ہے بیکار نہ سمجھو ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت و نصیحت پر اس قدر کاربند رہیں کہ کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کے نہ رکھا ۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ستّر ہزار درہم راہ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ ان کی قمیص کے مبارک دامن میں پیوند لگا ہوا تھا ۔
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنھما نے آپ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ نے اسی دن سب کو اقارب و فقراء پر تقسیم فرمادئیے ۔ اس دن روزہ سے ہونے کے باوجود شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ بچایا ۔ باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم روٹی خریدنے کے لے بچالیتیں تو اچھا ہوتا فرمایا یاد نہیں آیا اگر یاد آ جاتا تو بچا لیتی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب معتبرہ میں دو ہزار دو سو حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بخاری و مسلم میں ایک سو چوہتر متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری میں چوّن اور صرف مسلم میں سٹرسٹھ ہیں بقیہ تمام کتابوں میں ہیں ، صحابہ و تابعین میں سے خلق کثیر نے ان سے روایتیں لی ہیں ۔
وصال !
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور حکومت میں 58ھ میں 68 سال کی عمر میں ہوا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وصال کے وقت فرمایا کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔
جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔
باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالٰی ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوبہ تھیں اپنے والد ماجد کے بعد !
4۔ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
نسب شریف :۔
ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھابنت عمر رضی اللہ تعالٰٰی عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی والدہ ماجدہ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھابنت مظعون، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ مظعون کی بہن ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت خینس بن خذافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں جو شرکاء بدر میں سے تھے سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ان کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔
بعد وصال حضرت خنیس رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی صاجزادی کے نکاح کےلئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا مگر انھوں نے اثبات میں جواب نہ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپکی خواہش ہو تو حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح تمھارے ساتھ کردوں۔ اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو میں غصہ میں آیا اور یہ غصہ اس سے زیادہ تھا جتنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آیا تھا۔ اس کے بعد چند راتیں نہیں گزری تھیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیام دیا اور میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کردیا۔ پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ شائد اس وقت مجھ پر ناراض ہوگئے تھے جبکہ تمھاری پیش کش پر میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔ میں نے کہا میں ناراض ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری پیشکش کا انکار تو نہیں کیا تھا۔ البتہ میں یہ جانتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کیا۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کر لیتا۔
خوشخبری :۔
ایک روایت میں مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو ایک طلاق رجعی دی۔ جب یہ خبر سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پہنچی تو بہت دکھ ہوا۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام تشریف لائے کہ اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے رجوع فرمالیں کہ وہ بہت روزہ دار اور شب بیدار ہیں اور وہ جنت میں آپ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
حضرت عمار بن یا سر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا شب بیدار اور بکثرت روزے رکھنے والی تھیں۔ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلی مقام پر فائز ہونگی۔
سدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں سے چار تو متفق علیہ یعنی بخاری و مسلم میں ہیں تنہا مسلم میں چھ اور پچاس دیگر تمام کتابوں میں مروی ہیں۔
وصال :۔
سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال زمانہ امارت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں45ھ یا 41ھ یا 47ھ میں ہوا۔ بعض خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں بتاتے ہیں لیکن پہلا قول صحیح تر ہے۔
5۔ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
سلسلہ نسب !
زینب رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت خزیمہ بن حارث بن عبد اللہ بن عمر و بن عبد مناف بن ہالا بن عامر بن صصعہ ۔
آپ فقراء و مساکین پر نہایت ہی مہربان تھیں ۔ انھیں کھانا کھلاتیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتی تھیں ، لہذا زمانہ جاہلیت میں بھی ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں ۔
آپ کا پہلا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سے ہوا جو نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے غزوہ احد میں شہید ہوئے ، ہجرت کے تیسرے سال۔
حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی شہادت کے بعد آپ ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں ، لیکن آپ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہت کم حیات رہیں ۔ اور رحمت عالمیاں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وصال فرمایا ۔ آپ دو ماہ یا چھ ماہ یا آٹھ ماہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہ کر ماہ ربیع الآخر 4ھ میں اس دار فانی سے کوچ کیا ۔ اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
6۔ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا !
سلسلہ نسب :
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام ھند بنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم آپ کی کنیت ام سلمہ ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ ہے ۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ سے ہوا ۔ جن سے چار بچے پیدا ہوئے ۔ آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ واپس آئیں ۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ غزوہ احد میں شریک ہوئے ۔ لڑائی کے دوران جو زخم آئے کچھ عرصے مندمل ہونے کے بعد پھر تازہ ہوگئے ۔ اور آپ نے انہیں زخموں کی وجہ سے 4ھ میں اس دار فانی سے کوچ فرمایا ۔
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم :-
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنا لیا جسے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم فرمائی وہ دعا یہ ہے ۔
اللھمہ اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا ۔
ترجمہ : اے اللہ عزوجل مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر قائم مقام بنا ۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل ہی میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا ۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا تھا اس لئے اسے پڑھتی رہی ۔
نیز سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے سن رکھا کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جو میت کے سرہانے موجود ہو اچھی دعا مانگے اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں ۔
جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصال فرمایا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا !
یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہو ‘‘ اے اللہ عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اور میری عاقبت کو اچھی بنا ۔
پھر میں اسی دعا پر قائم ہو گئی اور اللہ تعالٰی نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا ۔ اور وہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصال پر حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تعزیت کےلئے ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر تشریف لائے اور دعا فرمائی۔ اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما۔
ایک روایت ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما علیھمہ الرضوان نے اپنا اپنا پیام بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھما نے ان کے پیام کو منظور نہ فرمایا پھر جب حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالٰی عنہ ابی بلتعہ کے ذریعے پیام بھیجا تو کہا مرحبا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے نکاح ماہ شوال 4ھ میں ہوا۔ ان کا مہر ایسا سامان جو دس درہم کی قیمت تھا مقرر ہوا۔
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے تین سواٹھتر حدیثیں مروی ہیں ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم صرف بخاری میں تین حدیثیں اور تنہا مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔
وصال :۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال امہات المومنین میں سب سے آخر میں ہوا۔ آپ کا وصال 59ھ میں ہوا جو صحیح ترہے اور بعض 62ھ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد بتاتے ہیں اور اس قول تائید ایک روایت ہے جسے ترمذی نے ایک انصار کی بیوی سلمی رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت کیا۔ وہ کہتی ہیں میں ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس گئی۔ آپ کو روتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا اے ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کس چیز نے رولایا ہے۔ فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ کا سرانور اور آپ کے محاسن شریف گرد آلود ہیں اور گریہ فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کس بات پر گریا فرمارہے ہیں۔ فرمایا جہاں حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا وہاں موجود تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے وقت حیات تھیں۔
ام المومنین سیدہ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال چور اسی سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔ ان کی نمازہ جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بقول دیگر سعیدبن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
7۔ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنھا
ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام برہ تھا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل فرما کر زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا رکھا۔ آپ کی کنیت ام الحکم تھی۔ آپ کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ پہلے حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بن حارثہ کے نکاح میں تھیں حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد آپ کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ہوا۔
نکاح مع سیدہ المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عدت پوری ہوگئی تو سروردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا جاؤ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کو میرے لئے پیام دو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر پہنچا اور کہا کہ تمھیں خوشی ہو کہ رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تمھارے پاس بھیجا ہے کہ میں سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کےلئے پیام دوں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اس بات کا جواب میں اپنے رب عزوجل سے مشورہ سے دونگی پھر وہ اٹھیں اور مصلے پر پہنچیں اور سر بسجود ہو کر بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اے خدا تیرا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے چاہا ہے اگر میں ان کی زوجیت کے لائق ہوں تو مجھ ان کی زوجیت میں دے دے۔ اسی وقت ان کی دعا قبول ہوئی اور یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی۔
فلما قضٰی زید منھا وطرا زوجنٰکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھن وطرا ط وکان امر اللہ مفعولا
پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دیدی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں کی بی بیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے ،اور اللہ کا حکم ہو کر رہنا ۔
آپ پر آثار وحی ظاہر ہوئے چند لمحے بعد مسکراتے ہوئے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس جائے اور انھیں بشارت دے کہ حق تعالی نے ان کو میری زوجیت میں دے دیا ہے۔ اور یہ نازل شدہ آیت تلاوت فرمائی۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خادمہ حضرت سلمی رضی اللہ تعالٰی عنھا دوڑیں اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بشارت دی۔ اور اس خوشخبری سنانے پر اپنے زیوارات اتار کر حضرت سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو عطا کردے۔ اور سجدہ شکر بجا لائیں اور دو ماہ روزہ سے رہنے کی نذرمانی۔
انفاق فی سبیل اللہ !
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں،میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنھا سے زیادہ کسی عورت کو بہت زیادہ نیک اعمال کرنے والی، زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی رحمی رشتہ داروں کو زیادہ ملانے والی اور اپنے نفس کو ہر عبادت و تقریب کے کام میں مشغول رکھنے والی نہ دیکھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحت کے ساتھ مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا ، تم میں سے جس کے ہاتھ دراز ہیں وہ مجھ سے ملنے میں تم سب سے پہلے سبقت کرنے والی ہے ، اس کے بعد ازواج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھوں کو بانسوں کے ٹکڑے سے ناپنا شروع کردیا تاکہ جانیں کہ کس کے ہاتھ دراز ہیں ۔
انھوں نے جانا کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کے ہاتھ زیادہ دراز ہیں ۔ جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد سیدہ دار فانی سے رخصت ہوئیں تو انھیں معلوم ہوا کہ درازی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی ۔ اس لئے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے ہاتھ سے دستکاری کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں ۔
سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا سے مروی ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے مجھے چند فضیلتیں ایسی حاصل ہیں جو کسی اور زوجہ میں نہیں ایک یہ ہے ،میرے جد اور تمھارے جد ایک ہیں دوسرے میرا نکاح آسمان میں ہوا تیسرے یہ کہ اس قصہ میں جبریل علیہ السلام سفیر و گواہ تھے ۔
ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا سے گیارہ حدیثیں مروی ہیں ۔ دو متفق علیہ یعنی بخاری ومسلم میں ہیں اور باقی نو دیگر کتابوں میں ہیں ۔
وصال !
ان کے وصال کی خبر جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو پہنچی تو فرمایا !
پسندیدہ خصلت والی ، فائدہ پہنچانے والی یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری کرنے والی دنیا سے چلی گئی آپ کی جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی۔ آپ کا وصال تریپن سال کی عمر میں 20ھ یا 12ھ مدینہ شریف میں ہوا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
8۔ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بن الحارث
ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام برہ بنت الحارث بن ابی ضرار تھا۔ حضور اکرم نے آپ کا نام تبدیل کرکے جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا رکھ دیا تھا ۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰٰٰی عنہ فرماتے ہیں ،کہ گویا حضور اکرم کو اس نام کو مکروہ جانتے تھے جیسے کوئی یہ کہے کہ برہ کے پاس سے نکل آئے برہ کے معنٰی نیکی و احسان کے ہیں ۔
نکاح مع سید المرسلین :-
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بڑی شیریں ،ملیح اور صاحب حسن وجمال عورت تھیں ،جو کوئی اسے دیکھتا فریضۃ ہو جاتا تھا۔جنگ اور تقسیم غنا یم کے بعد حضور اکرم ایک سمندر کے کنارے میرے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک جویریہ نمودار ہوئیں مجھ پر آتش غیرت نے غلبہ کیا کہیں ایسا نہ ہو حضور اکرم ان کی طرف توجہ خاص مبذول فرمائیں اور اپنے حبالہ عقد میں لے آئیں ۔ جب جویریہ آئیں ۔ تو انھوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ یا رسول اللہ میں مسلمان ہو کر حاضر ہوئی ہوں ۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسولہ
اور میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں جو اس قبیلہ کا سردار اور پیشوا تھا ۔ اب لشکر اسلام کے ہاتھوں میں قید ہوں ۔ اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آگئی ہوں ۔اور اس نے مجھے اتنے مال پر مکاتب (یعنی آقا کو مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرنا بنایا ہے میں اسے ادا نہیں کر سکتی میں امیّد رکھتی ہوں کہ میری اعانت فرمائی جائے تاکہ کتابت کی رقم ادا کر سکوں ۔ فرمایا : میں ادا کردونگا اور اس سے بھی بہتر تمھارے ساتھ سلوک کروں گا۔
انھوں نے کہا اس سے بہتر کیا ہوگا ۔
فرمایا کتابت کی رقم ادا کرکے تمھیں حبالہ عقد میں لاکر زوجیت کا شرف بخشوں گا۔ اس کے بعد کسی کو ثابت بن قیس کے پاس بھیجا کہ وہ کتابت کی رقم ادا کرے اس کے بعد ان کو آزاد کرکے حبالہ عقد میں لے آئے اور چار سو درہم مہر کا مقرر فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا مہر بنی المصطلق کے قیدیوں کی آزادی کو بنایا۔
قیدیوں کی رہائی !!
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے جب جانا کہ آپ سید کائنات کی زوجیت میں آچکی ہیں تو باہم کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ حضور اکرم کے حرم کے اقربا کو قید و غلامی میں رکھیں ،اس کے بعد سب کو آزاد کردیا ،جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ ازواج مطہرات میں سیدہ جویریہ سے زیادہ خیر و برکت والی کوئی اور حرم ہو۔
سیدہ کا خواب !!
ام المؤمنین سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے چاند چلتا ہوا میری آغوش میں اتر آیا ، یہ خواب کسی سے بھی بیان نہ کیا جب میں خواب سے بیدار ہوئی تو اس کی خود ہی کر لی جو الحمد اللہ ہوری ہوئی۔
دو اونٹ !!
حضرت سیدہ جویریہ کے والد حارث بن ابی ضرار کو یہ معلوم نہ تھا سیدہ آپ کے نکاح میں آچکی ہیں وہ بہت سا مال اونٹوں پر لاد کر اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہوئے ۔مقام عقیق پر پہنچ کر اونٹوں کو چرانے کے لئے چھوڑ دیا ۔ دو پسندیدہ اونٹوں کو گھاٹی میں چھپا کر مدینہ طیبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا ۔
میری بیٹی کا فدیہ لے کر اسے رہا کردیں ،اور سارا مال و اسباب و اونٹ وغیرہ سرکار عالی وقار میں پیش کرنے لگے !
تو حضور اکرم نے فرمایا ۔ حارث ! وہ دو اونٹ کہاں ہیں جن کو تم عقیق کی گھاٹیوں میں چھپا آئے ہو۔
حارث پر اس غیب کی بات بتانے کا اتنا اثر ہوا کہ وہ فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا ،جب اسے معلوم ہوا کہ میری بیٹی امہات المؤمنین میں سے ہے تو وہ بہت خوش ہوا اور بڑی خوشی سے اپنی بیٹی سے مل کر ہشاش بشاش اپنی قوم کے گھر روانہ ہوا۔
کتب معتبرہ میں سیدہ جویریہ سے سات حدیثیں مروی ہیں ۔ بخاری میں دو ،مسلم میں دو اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں ۔
وصال !
ام المؤمنین سیدہ جویریہ کا وصال پینسٹھ سال کی عمر میں 50ھ یا 56ھ میں مدینہ طیبہ میں ہوا ، ان کی نماز جنازہ مروان نے جو امیر معاویہ کی جانب سے حاکم تھا پڑھی۔
9۔ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
سلسلہ نسب ۔
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف ، ان کا نام رملہ یا بقول دیگر ہند تھا ، ان کی والدہ صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبد الشمس تھیں ۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا اوائل اسلام میں ایمان لے آئیں اور حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی ، آپ پہلے عبید اللہ بن جحش کی زوجیت میں تھیں ،جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی ،جس کا نام حبیبہ تھا ، اسی سے آپکی کنیت ام حبیبہ ہوئی ۔
عبید اللہ بعد میں اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہو کر مرا ۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا کا خواب !!!
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ خواب میں ایک شخص مجھے ام المؤمنین کہہ کر مخاطب کر رہا ہے ، میں نے خواب کی تعبیر یہ لی کہ رسول اللہ مجھے نکاح میں لائیں گے ۔
نکاح مع سید المرسلین :-
حضور تاجدار مدینہ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمیری کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ ام حبیبہ کو حضور اکرم کے لئے پیام دیں اور نکاح کریں ، پھر سیدہ ام حبیبہ نے حضرت خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا، نجاشی نے خطبہ پڑھا ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور وہ تمام مسلمان جو حبشہ میں موجود تھے شریک محفل ہوئے ،پھر نجاشی نے حضرت خالد بن سعید کو دینار سپرد کئے آپ جب روانہ ہونے کے لئےتیار ہوئے تو نجاشی نےکہا بیٹھ جاؤ کہ مجلس نکاح میں کھانا کھلانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے ، سب نے کھانا کھایا پھر رخصت ہوگئے ۔
مروی ہے کہ نجاشی نے وکیل کا تعین اور عقد نکاح کے سلسلے میں اپنی باندی ابرہہ کو حضرت ام حبیبہ کے پاس بھیجا ، آپ نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور اپنا زیب تن اتار کر باندی کے حوالے کردیا ،اور حضرت خالد بن سعید کو اپنا وکیل بنایا،نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب اور تمام مسلمانوں کو مدعو فرما کر ان کی خاطر و مدارات فرمائی نیز ام حبیبہ کا مہر چار سو مثقال سونا یا چار ہزار درہم مقرر کیا ۔
اور ام حبیبہ کے پاس بھیجا تاکہ اپنی تیاری اور ضروریات پر صرف فرمائیں ، سیدہ ام حبیبہ نے عذر خواہی کا اظہار کرتے ہوئے ابرہہ باندی کو مزید پچاس مثقال سونا عطافرمایا تاکہ اس خوشخبری کا شایان شان اظہار ہوسکے ، نجاشی نے یہ تمام سونا اور تمام زیورات دوبارہ سیدہ ام حبیبہ کی خدمت میں پیش کر دئیے اور کہلوایا،
آپ ان چیزوں کی زیادہ حق دار ہیں کیونکہ اپنے شوہر کے پاس جارہی ہے ،پھر عرض کیا کہ بارگاہ رسالت میں میرا سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ میں آپ کے صحابہ کے دین پرہوں اور ہمیشہ درودوسلام بھیجتا رہتا ہوں ،نیز نجاشی کی عورتوں نے ام حبیبہ کے لئے عطر و خوشبویات بھیجیں ، حضور اکرم نے حضرت شرجیل بن حسنہ کو بھیجا کہ سیدہ ام حبیبہ کو مدینہ طیبہ میں لائیں ، مدینہ طیبہ پہنچنے پر حضور اکرم نے ان سے زفاف فرمایا ، اور جب انھوں نے نجاشی کا سلام پیش کیا تو حضور اکرم نے فرمایا:
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدہ کا ادب !
صلح حدیبیہ کے دوران ابو سفیان مدینہ منورہ آیا، سیدہ ام حبیبہ کے گھر پہنچ کر چاہا کہ سرکار دو عالم کے بستر پر بیٹھے سیدہ نے اپنے باپ کو بستر پر بیٹھنے سے منع کردیا اور فرمایا یہ بستر طاہر و مطہر ہے اور تم نجاست شرک سے آلودہ ہو۔
سیدہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب معتبرہ میں پینسٹھ احادیث مروی ہیں ان میں سے دو متفق علیہ ہیں ایک تنھا مسلم میں ہے باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں ۔
وصال
سیدہ ام حبیبہ پاکیزہ ذات ، حمیدہ صفات ،جواد اور عالی ہمت تھیں ۔ قرب وصال سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ سے کہا کہ مجھے ان امور میں معاف کردو جو ایک شوہر کی بیبیوں کے درمیان ہوجاتے ہیں اور اس نوع سے جو کچھ میری جانب سے تمھارے متعلق واقع ہوا ہو اسے معاف کردو ، انھوں نے کہا حق تعالٰی تمھارے بوجھ کو بخشے اور معاف کرے ہم بھی معاف کرتے ہیں ، ام المؤمنین ام حبیبہ نے کہا اللہ تعالٰی تمھیں خوش رکھے تم نے مجھے خوش کردیا۔
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ کا وصال مدینہ طیبہ میں 40ھ یا 44ھ میں ہوا۔ ایک قول کے مطابق آپ کا وصال شام میں ہوا۔
10۔ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حّی بن الخطیب رضی اللہ تعالٰٰی عنھا
ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا بنت حّی بن الخطیب بنی اسرائیل سے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ۔
نکاح مع سید المرسلین صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
ام المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حّی رضی اللہ تعالٰٰی عنھا خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں ۔ حضور تاجدار مدینہ نے ان کو اپنے لئے منتخب کرلیا ۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ وحید کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصہ میں آئیں لوگوں نے کہا ! وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ، حسینہ جمیلہ ہونے کے علاوہ قبیلہ کے سردار کی بیٹی بھی ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ وہ حضور اکرم کے ساتھ مخصوص کی جائیں ۔ مروی ہےکہ حضور اکرم نے حضرت وحید کلبی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا ان قیدیوں باندیوں میں سے کوئی اور لے لو ۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت وحید کو سیدہ صفیہ کے چچا کی لڑکی ان کے بدلے میں مرحمت فرمائی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت وحیہ سے سیدہ صفیہ کو سات باندیوں کے بدلہ خریدا، پھر حضور اکرم نے انھیں آزاد فرمادیا اور نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر بنایا ۔
سیدہ صفیہ کا خواب !
سیدہ صفیہ نے خواب میں دیکھا کہ چودھویں رات کا چاند ان کی آغوش میں آگیا ہے ،جسے اپنے پہلے شوہر کنانہ سے بیان کیا ، اس نے کہا کہ تو اس بات کی خواہش رکھتی ہے کہ اس بادشاہ کی بیوی بنے اور ایک طمانچہ حضرت صفیہ کو مارا جس سے آپ کی آنکھ نیلی پڑ گئی ،شب زفاف میں اس طمانچہ کا اثر ظاہر تھا ،سرور دو عالم کے استفسار پر آپ نے ساری حقیقت حال بیان کردی ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ کا ادب !
غزوہ خیبر کی واپسی پر حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سواری پر رکھے تاکہ سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے قدموں کو حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہوجائیں ،سیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قدم کی بجائے اپنے زانو کو حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران پر رکھ کر سوار ہو گئیں ، حضور اکرم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنا ردیف بنایا اور پردہ باندھا۔
حضور اکرم سیدہ صفیہ کی باری کے دن ان کے پاس تشریف لائے ، سیدہ صفیہ کو روتے پا کر سبب گریہ وزاری پوچھا عرض کیا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھا آکر مجھے ایذاء دیتیں ہیں ۔ کہتیں ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں کیونکہ ہمیں نبی کریم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نسب مبارک کی شرافت حاصل ہے ،حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے کیوں نہیں کہا کہ تم کیوں کر مجھ سے بہتر ہو ،حالانکہ میرے باپ ہارون علیہ السلام ہیں اور میرے چچا موسٰی علیہ السلام ہیں ۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کتب احادیث معتبرہ میں دس حدیثیں مروی ہیں ،ایک متفق علیہ اور باقی نو دیگرکتابوں میں ہیں ۔
وصال
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال مختلف اقوال کے مطابق 36ھ یا 52ھ یا 55ھ میں ہوا ،یہ قول بھی ہے کہ خلافت فاروقی میں آپ کا وصال ہوا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
11۔ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ۔
ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت الحارث کا نام برہ تھا ، حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل کر کے میمونہ رکھا ۔
آپ کی والدہ کا نام ہند بنت عوف ہے جو ایسے داماد رکھتی تھیں جو کسی اور کو میسّر نہیں ، ایک داماد حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تھے ، دوسرےداماد حضرت عباس رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی بہن ام الفضل رضی اللہ تعالٰی عنھا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ، ہند بنت عوف کی پہلے شوہر عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہ خشعمی سے دو صاحبزادیاں تھیں ۔ ایک اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا جو پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ، حضرت جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نکاح میں آئیں ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجیت میں آئیں ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالٰی عنھا کی دوسری بہن حضرت زینب بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنھا ، حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰٰی عنہ کی زوجیت میں تھیں ۔
نکاح مع سید المرسلین
ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح آپ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ماہ ذیقعدہ 7ھ میں عمرہ القضاء میں ہوا ۔
حضرت سہیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صل اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انھیں نکاح کا پیام ملا وہ اونٹ پر سوار تھیں ۔ مسرت کے باعث اونٹ سے نیچے آ پڑیں اور کہا اونٹ اور سازوسامان سبھی کچھ رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے ۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح ،زفاف اور وصال ایک ہی مقام پر واقع ہوا جسے سرف کہتے ہیں اور یہ مکہ مکرمہ سے دو میل کے فاصلہ پر ہے ۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے چھتّر حدیثیں مروی ہیں ، سات متفق علیہ ایک صرف بخاری و مسلم میں ہے باقی دیگر کتابوں میں ہیں۔
وصال !
سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال مشہور تر قول کے مطابق 51ھ ہے اور باقول مختلفہ 61ھ 62ھ یا 63ھ بھی بتایا گیا ہے ، بقول بعضے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال 38ھ میں امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنھا کے دور خلافت میں ہوا ۔ اور آپ آخری زوجہ مطہرہ ہیں ان کے بعد حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کسی سے نکاح نہ فرمایا ، آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھانجے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی اور دیگر بھانجوں نے ان کو قبر میں اتارا۔
(( ماخوذ از ))
1، مشکواۃ شریف
2، مدارج النبوۃ
3، نزہت المجالس
No comments:
Post a Comment